نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

’’ارے یہ بارش کہاں سے آئی؟ پانچ منٹ پہلے تو آسمان بالکل صاف تھا۔‘‘ فیونا کی ممی نے حیران ہو کر کہا۔ اور پھر سب خیموں کی طرف دوڑ پڑے، کیوں کہ صرف بارش ہی نہیں آسمان میں زور دار بجلی بھی کڑکی تھی۔ مائری نے سب کو اپنے خیمے میں آنے کو کہا کیوں کہ وہ سب سے بڑا تھا۔ جب وہ خیمے میں داخل ہوئے تو انھوں نے نہایت حیرت سے دیکھا کہ اولے برسنے لگے ہیں، جس نے خیمے کو جیسے زلزلے کی زد پر لے لیا ہو۔ باہر گاڑیوں کے بونٹس پر اولے پتھر کی طرح گر کر شور مچا رہے تھے۔ اینگس پریشان ہو گئے کہ گاڑی میں ڈینٹ پڑ جائیں گے اور گاڑی کا مالک یہ دیکھ کر سخت ناراض ہو جائے گا۔
اچانک فیونا کو ایک خیال آیا اور اس نے کہا لگتا ہے یہ بھی ڈریٹن کی شرارت ہے۔ انھوں نے خیمے سے سر باہر نکال کر دیکھا، پتھروں سے بنے چولھے کے گھیرے میں پانی بھر چکا تھا اور کیمپ گراؤنڈ کے گڑھے بھی پانی سے بھر چکے تھے۔ باقی افراد کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ ڈریٹن کی کارستانی ہے۔ پھر فیونا نے آنکھیں بند کر کے بارش، اولے اور کڑکنے والی بجلی روکنے کی کوشش کی۔ کچھ ہی دیر بعد اس کے کانوں سے جیفرے کی آواز ٹکرائی: ’’شکر ہے بارش رک گئی۔‘‘
بارش رکنے کے بعد ماحول پراسرار طور پر گرم ہونے لگا تھا، جس کی وجہ سے ہر جانب پھیلی نمی کم ہونے لگی۔ ہوا کے گرم جھونکے انھیں اچھے لگنے لگے۔ وہ سب خیموں سے نکل آئے تھے اور فیونا نے جیفرے کی فرمائش پر ایک بار پھر آگ بھڑکا دی تھی۔ ہوا میں دیودار کی طرح میٹھی اور تازہ خوشبو آ رہی تھی۔ وہ آگے کے گرد بیٹھ کر خشک میوہ جات کھانے لگے اور ہنس ہنس کر باتیں کرنے لگے۔ اس وقت وہ شہد کی مکھیوں کے ڈنک کی تکلیف بھی بھول گئے تھے۔
ایسے میں قدیم انسانوں میں کسی نے کہا کہ انھیں کوئی ایسی کہانی سنائی جائے جو انھوں نے اپنے زمانے میں نہ سنی ہو۔ فیونا نے کہا کہ وہ ڈراؤنی کہانی سنا سکتی ہے، پھر اس نے پوچھا کہ کیا انھوں نے ویمپائر کے بارے میں کبھی سنا؟ جولین نے کہا کہ اس نے تو کبھی نہیں سنا، اس نے جیفرے کی طرف دیکھ کر استفسار کیا اور اس نے پوچھا کیا یہ کوئی جان ور ہے؟ فیونا ہنسنے لگی اور بتایا: ’’ویمپائر آدمی ہوتا ہے، جو چمگادڑ میں تبدیل ہو سکتا ہے اور دیگر انسانوں کا خون پیتا ہے، اسے مارنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ اس کے دل میں لکڑی گھسائی جائے یا چاندی کی گولی استعمال کی جائے۔‘‘
’’بہت عجیب چیز ہے یہ تو۔‘‘ جیفرے بولا۔ جولین نے کہا تو چلی سناؤ کوئی کہانی۔ فیونا سنانے لگی: ’’بہت عرصہ پہلے ٹرانسلوینیا میں …‘‘
جب فیونا نے کہانی سنائی تو وہ حیران ہوتے رہے، پھر اینگس گاڑی سے طاقت ور دوربین لے کر آ گئے، اور انھیں کھلے اور صاف آسمان میں ستارے دیکھنے کا تجربہ کرایا۔ مائری نے انھیں ملکی وے گیلیکسی کے بارے میں بتایا جس میں ہمارا نظام شمسی واقع ہے۔ دوربین کی مدد سے جب انھوں نے ستاروں کو اتنا صاف دیکھا تو وہ ششدر رہ گئے، اور اگلے ایک گھنٹے تک وہ سب کائنات کے عجائب پر حیران ہوتے رہے۔ وہ کہتے رہے کہ ان کے دور میں بڑے بڑے جادوگر تھے لیکن اس جدید زمانے کے جادوگروں کا کوئی مقابلہ ممکن نہیں ہے۔
دوسری طرف ڈریٹن کو ایک بار پھر اپنی شکست محسوس ہو رہی تھی، وہ بڑبڑا کر بولا، فیونا تم نے ایک بار پھر مجھے ہرا دیا ہے، لیکن خیر ابھی میں تھوڑی دیر سونا چاہتا ہوں، جاگنے پر دیکھوں گا۔ وہ گاڑی کی پچھلی میں گھسا اور کوٹ خود پر ڈال کر آنکھیں بند کر لیں۔
(جاری ہے…)

Comments