نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
’’اچھا اب تولیے واپس رکھ دو اور نیچے چل کر معلومات حاصل کرتے ہیں۔‘‘ فیونا نے تولیہ واپس ریک پر ڈال دیا، اور دروازے کی طرف بڑھی۔ تینوں لفٹ کے ذریعے نیچے چلے گئے۔ فیونا استقبالیہ پر موجود شخص کی طرف بڑھی۔ ’’جناب، کیا یہاں قریب میں کوئی آتش فشاں پایا جاتا ہے؟‘‘
استقبالیہ پر موجود شخص مسکرایااور میز پر ذرا آگے کی طرف جھک کر انھیں پوری طرح دیکھ کر بولا: ’’یہ پورا ملک ہی آتش فشاں ہے، ہاں اگر یہ جاننا ہو کہ حالیہ آتش فشاں کہاں پھٹا ہے تو بتا دیتا ہوں کہ ویسٹمین جزائر کا ایک آتش فشاں ہے جسے ہیمے کہتے ہیں، اور یہ 1973 میں پھٹا تھا۔‘‘
’’ہاں بالکل یہی، ہم وہاں کیسے جا سکتے ہیں؟‘‘ فیونا نے جلدی سے پوچھا۔ اس نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے تھوڑی سی دیر کر دی، کیوں کہ سہ پہر کو آخری کشتی بھی کچھ دیر قبل ہی نکلی ہے، اب اگلی صبح کا انتظار کرنا پڑے گا۔ اس نے کہا کہ ناشتہ کر کے میرے پاس آنا تو میں راستہ سمجھا دوں گا۔ اس نے انھیں چند پمفلٹس بھی دیے اور ہدایت کی کہ انھیں غور سے پڑھ لیں۔ استقبالیہ پر موجود شخص نے آخر میں اپنا نام بھی بتایا: ’’میرا نام میگنس میگنسن ہے، لیکن تم لوگ مجھے صرف میگنس پکار سکتے ہو، اور آپ کی تعریف؟‘‘
’’میں فیونا، یہ جبران اور یہ دانیال۔‘‘ فیونا نے تعارف کرایا: ’’دراصل ہمارے والدین جلد ہی یہاں پہنچیں گے۔ انھوں نے ہمیں پہلے ہی یہاں بھیج دیا ہے اس لیے ہم اپنے طور پر گھوم پھرنا چاہتے ہیں۔‘‘ اس نے کہا ٹھیک ہے اب تم لوگ رکجاوک کی شام سے لطف اندوز ہو۔
فیونا نے دونوں کی طرف مڑ کر کہا: ’’ہمیں میگنس کی بات پر عمل کرنا چاہیے، باہر چل کر رکجاوک کی شام کا لطف اٹھاتے ہیں اور پھر واپس آ کر رات کا کھانا کھاتے ہیں۔‘‘ تینوں ہوٹل سے نکل کر سڑک پر آ گئے اور پمفلٹس کھول کر یہاں کے بارے میں درج معلومات پڑھنے لگے۔ جبران نے سر اٹھا کر اوپر دیکھا اور حیران ہو کر کہا: ‘‘ابھی ساڑھے چار ہی بجے ہیں اور اندھیرا چھانے لگا ہے، گرمیوں کے موسم میں یہاں سورج غروب ہی نہیں ہوتا اور ساری رات سورج کی روشنی رہتی ہے۔‘‘
’’پمفلٹ میں لکھا ہے کہ اب یہاں خزاں کا موسم ہے، اسی لیے سردی بھی کوئی خاص نہیں ہے اور برف باری بھی۔‘‘ دانیال بتانے لگا، وہ اب جادو کی وجہ سے انگریزی بول ہی نہیں بلکہ اچھے سے پڑھ بھی سکتا تھا۔ جبران نے اندھیرا ہوتے دیکھ کر کہا: ’’ہمیں اب ہوٹل جانا چاہیے، اجنبی مقام پر رات کو گھومنا محفوظ نہیں۔‘‘
’’کسی میوزیم یا پھر کوئی لائبریری دیکھنے چلتے ہیں۔‘‘ دانیال بولا۔ فیونا نے جبران کی حمایت کی: ’’نہیں دانی، ہم یہ سب جگہیں پھر بھی دیکھ سکتے ہیں، ویسے مجھے بھوک بھی لگی ہے۔‘‘ دانیال نے کہا کہ کل تو ہم بہت مصروف ہوں گے، کچھ شاپنگ ہی کر لیتے ہیں، خواہ ایک ہی دکان میں جائیں۔ جبران اور فیونا نے اس کی ضد کے آگے ہار مان لی۔ جبران نے کہا میں تو مچھلیوں والے کی دکان میں جانا چاہوں گا، جہاں ماہی گیری کا سامان فروخت ہوتا ہو، اپنے پاپا کے لیے کچھ خریدوں گا۔ لیکن دانیال نے منھ بنا کر کہا کہ یہ چیزیں تو گیل ٹے میں بھی بہ آسانی مل جاتی ہیں۔ ایسے میں فیونا نے سامنے کی ایک دکان کی طرف اشارہ کیا کہ چلو اس میں چلتے ہیں۔ فیونا نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا، یہ دست کاری، فن اور اونی اشیا کی دکان تھی۔ دانیال سڑک ہی پر کھڑا رہ گیا، اس نے کہا: ’’نہیں بھئی، یہاں لڑکیوں کی چیزیں ہی ملتی ہیں۔‘‘
فیونا نے کہا: ’’ٹھیک ہے، تم اپنی مرضی کی دکان ڈھونڈ لو، ہم دونوں یہاں جاتے ہیں، لیکن آدھے گھنٹے بعد یہیں پر واپس آنا۔‘‘
آدھے گھنٹے بعد جب دونوں دکان سے نکلے تو دانیال کا کوئی اتا پتا نہیں تھا۔ انھوں نے کچھ دیر انتظار کیا اور پھر رفتہ رفتہ ان کی پریشانی بڑھتی گئی۔
(جاری ہے)