نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
دریائے ڈِنجک تک جانے والی سڑک سانپ کی مانند بل کھاتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ شَین نے انھیں سینٹ الیاس پہاڑی سلسلے اور کینیڈا کی اونچی چوٹی ماؤنٹ لوگان کے بارے میں بتایا، پھر کہا: ’’میں نے تمھارے سامان میں چھوٹے کیمرے بھی رکھے ہیں، انھیں نکال کر یہ خوب صورت مناظر اپنے پاس محفوظ کر سکتے ہو، تم نے ایسی جگہیں پہلے کبھی نہیں دیکھی ہوں گی۔‘‘
دانیال نے جبران سے اینگس والا کیمرہ مانگا تو اس نے سامان سے نکال کر دے دیا۔ دانیال نے گاڑی کے فرنٹ کے شیشے سے سامنے دیکھا، گاڑی نے ابھی ابھی ایک موڑ لیا تھا۔ ’’کیا یہ گلیشیئر ہے؟‘‘ وہ برف کے ایک بہت بڑے ٹکڑے کو مگن ہو کر دیکھنے لگا۔ ’’ہاں ڈِنجک گلیشیئر، کتنا شان دار ہے نا!‘‘ یہ کہہ کر اس نے گاڑی روک دی اور وہ سب باہر نکلے۔ تینوں کے منھ سے بے ساختہ حیرت کے کلمات نکلے۔ شَین کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی، اس نے کہا کہ اب اپنا اپنا سامان سنبھال لو کیوں کہ آگے چڑھائی چڑھنی تھی۔ جبران نے نیلی برف کو حیرت سے دیکھا جو بہت خوب صورت دکھائی دے رہی تھی لیکن اس پر گندگی بھی نظر آ رہی تھی۔ شین نے بتایا کہ جب گلیشیئرز حرکت کرتے ہیں تو گندگی اس پر جمع ہونے لگتی ہے۔ شَین برف کے دریا کے کنارے ایک چٹان پر چڑھا اور کہا: ’’ہمیں ایک طویل راستے پر چڑھتے جانا ہے اس لیے سب پانی پی لیں۔‘‘
فیونا ایک چٹان پر بیٹھ گئی اور بوتل نکال کر پانی پی لیا، پھر آنکھیں بند کر کے جیسے مراقبے میں چلی گئی۔ بند آنکھوں کے سامنے اسے تصور میں زمرّد ایک گلیشیئر کے اندر دکھائی دینے لگا۔ اس جگہ پتھروں سے بنی ایک نشانی بھی موجود تھی۔ ذرا دیر بعد اس نے آنکھیں کھول کر جبران اور دانیال کی طرف دیکھا لیکن خاموش رہی۔ وہ اٹھ کر جبران کے پاس آئی اور سرگوشی میں کہا: ’’میں جان گئی ہوں کہ زمرّد کہاں ہے، جب ہم اس کے قریب پہنچیں گے تو تم اور دانی مل کر شَین کی توجہ کہیں اور کر دینا اور اس دوران میں اسے کھود کر نکال لوں گی۔‘‘
جبران نے کن اکھیوں سے شین کی طرف دیکھ کر جوابی سرگوشی کی: ’’فیونا، کیا تم جان لیوا پھندوں کو بھول گئی ہو؟ کیا وہ ان کا شکار نہیں ہو سکتا؟‘‘
’’ارے ہاں میں تو بھول گئی تھی۔‘‘ فیونا کے چہرے پر پریشانی کے آثار نظر آنے لگے۔ ’’ایک ہی راستہ ہے، ہمیں اس سے چھٹکارا پانا ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ ہم آرام کرنے کے بہانے رک جائیں گے، پھر جیسے ہی اس کی آنکھیں بند ہوں گی، ہم دوڑ کر اس سے چھپ جائیں گے۔ جب تک وہ ہمیں ڈھونڈ نکالے گا، ہم اپنا کام کر چکے ہوں گے۔‘‘
جبران کو اس کی یہ ترکیب کچھ زیادہ کارگر نہیں لگی تاہم اس نے ہامی بھرلی۔ اس کا خیال تھا کہ شَین بہت ہوشیار شخص معلوم ہوتا ہے۔ اور اگر اس نے آنکھیں ہی بند نہیں کیں تو ایسی صورت میں کیا کرنا ہوگا؟ فیونا نے کندھے اچکا کر کہا: ’’تب پھر مجبوری ہوگی!‘‘ یہ سن کر جبران چونک اٹھا اور اس بات کا مطلب پوچھنے لگا۔ فیونا نے کہا: ’’ظاہر ہے مجھے اسے ضرب لگا کر بے ہوش کرنا پڑے گا، بھلا ہم اس کا اور کیا علاج کریں گے؟‘‘