نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
جبران اور دانیال بستے ہاتھوں میں لیے اسکول کے باہر فیونا کا انتظار کر رہے تھے، وہ کافی دیر بعد اسکول سے نکلی اور آتے ہی بولی کہ آج تو وقت ہی نہیں گزر رہا تھا۔ لیکن جبران نے کہا کہ اسے گھر جانا ہوگا کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ ممی کو کوئی ضروری کام ہو، اور دانیال نے کہا کہ وہ کچھ تھکاوٹ محسوس کر رہا ہے۔ فیونا یہ سن کر پریشان ہو گئی، کہنے لگی: ’’یہ تم دونوں کیا کہہ رہے ہو، آج اگلا قیمتی پتھر حاصل کرنے جانا ہے اور مجھے تم دونوں کی ضرورت ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ٹھہری اور پھر بولی: ’’پتا ہے پچھلی رات بڑی خوف ناک تھی۔ ڈریٹن نے تو بس جیزے کو مار ہی ڈالا تھا۔ وہ زخمی ہے اور ہمیں وہاں جانا چاہیے۔‘‘
فیونا کے لہجے میں التجا تھی، جبران نے کہا ٹھیک ہے لیکن امید ہے کہ وہ کسی مشکل میں نہیں پڑے گا، دانیال نے بھی کہا کہ ان دونوں میں سے کسی کو کچھ ہو گیا تو بلال انکل اور شاہانہ آنٹی برداشت نہیں کر پائیں گے۔ فیونا ان کو دلاسا دینے لگی کہ ان کے ساتھ خیر کی قوتیں ہیں جو اُن کی مدد کرتی رہتی ہیں اس لیے انھیں کچھ نہیں ہوگا۔ وہ تینوں چل پڑے اور راستے میں جِین بٹلر کے گھر سے گزرے تو فیونا نے دیکھا کہ نیم قطبی جزائر کا اسکاتستانی کتا شاہ بلوط کے قریب پنجے نکالے غرّا رہا تھا۔ درخت کے ساتھ بلی کا ایک بچہ پڑا خوف سے کانپ رہا تھا۔
جبران غصے سے بولا: ’’ارے ایک ننھی بلونگڑی کو ڈرا رہا ہے یہ گندا کتا۔‘‘ وہ تینوں اس کی طرف دوڑ کر گئے۔ فیونا نے پاس پہنچ کر کہا: ’’گندے کتے، بلونگڑی کو جانے دو۔‘‘
کتے نے پنجے گرا کر اس کی طرف دیکھا۔ فیونا کہہ رہی تھی: ’’تم کتے ہمیشہ بلیوں کے پیچھے کیوں پڑے رہتے ہو! تم ایک گندے کتے ہو، چلو بھاگو یہاں سے۔‘‘
’’کیوں … میں تو ایک کتا ہوں، اور کتے ہمیشہ بلیوں کا پیچھا کرتے ہیں۔‘‘ فیونا مزید قریب ہو کر بولی: ’’اگر میں تمھیں سہلاؤں تو تم مجھے کاٹو گے تو نہیں، نہیں ناں؟‘‘
’’نہیں میں تمھیں نہیں کاٹوں گا۔‘‘ کتے نے کہا تو فیونا اسے سہلانے لگی، کتا بولا: ’’تمھارے ہاتھ کا لمس مجھے اچھا محسوس ہو رہا ہے، اسی طرح سہلاتی رہو، تم بہت اچھی ہو۔‘‘
فیونا اور کتے کے درمیان یہ گفتگو چل رہی تھی اور جبران دانیال حیران کھڑے تھے، ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ فیونا کی بات کے جواب میں کتا بھونک رہا ہے اور فیونا ایسے دکھائی دے رہی ہے جیسے اسے سمجھ رہی ہو۔ جبران نے حیرت سے پوچھا: ’’کیا تم کتے کے ساتھ باتیں کر رہی ہو؟‘‘ دانیال بھی تجسس کے ساتھ قریب آ کر کتے اور فیونا کے درمیان ہونے والی باتیں سننے کی کوشش کرنے لگا۔ ان دونوں کو تو صرف فیونا کی باتیں ہی سمجھ میں آ رہی تھیں۔ فیونا نے کہا: ’’ہاں، میں اس کے ساتھ باتیں کر رہی ہوں اور ہم خیال رسانی کے ذریعے ایک دوسرے کو سمجھ رہے ہیں۔ یہ کتا چاہتا ہے کہ میں اس کی پیٹھ سہلاؤں۔‘‘
یہ کہہ کر فیونا نے کتے کے کان رگڑے، کتے نے کہا ہاتھ مت روکو، مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے۔ فیونا نے پوچھا: ’’تمھارا نام کیا ہے پپی؟‘‘
کتا بولا: ’’میرا نام بوبی ہے، گریفرائر کے بوبی کی طرح، لیکن میں جانتا ہوں کہ یہ کوئی زیادہ تخلیقی نام نہیں ہے، اور تمھارا نام کیا ہے؟‘‘
’’مجھے فیونا کہتے ہیں، یہ جبران اور یہ دانیال ہے، انھیں بھی مت کاٹنا، اور ہاں اس بے چاری بلونگڑی کو تم نے ڈرا کر تقریباً مار ہی ڈالا ہے۔ بتاؤ تم اسے تکلیف کیوں دے رہے ہو؟‘‘