نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
خوف سے اس کی آنکھیں پھیل گئی تھیں اور دل اتنی زور سے دھڑکنے لگا تھا جیسے کسی بھی لمحے سینہ توڑ کر باہر نکل پڑے گا۔ اس نے تھر تھر کانپتے ہوئے دھیرے دھیرے گھوم کر دیکھا۔ اس کے اور ان دونوں کے درمیان نوکیلے دانتوں والا قدیم ٹائیگر کھڑا تھا۔ اتنا بڑا ٹائیگر اس نے کبھی تصویر میں بھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ ایک چھوٹی کار جتنا تھا اور اس کے جسم پر سیاہ اور نارنجی دھاریاں تھیں۔ اس کے سفید چمکتے دانت پینسل جتنے لمبے تھے اور اس کی آنکھوں سے جیسے شعلے نکلتے محسوس ہوتے تھے۔
ایک بار پھر وہ زبردست گرج کے ساتھ غرایا۔ اس کا رخ فیونا اور جبران کی طرف تھا، وہ دونوں بھی پلٹ کر اسے دیکھنے لگے تھے۔ جبران کی ٹانگیں واضح طور پر کانپ رہی تھیں، فیونا کے ہاتھ سے بھی کدال گر گیا تھا اور اسے اس کا پتا بھی نہیں چلا، وہ تو دہشت زدہ ہو کر سیبر ٹوتھ ٹائیگر کو ایک ٹک دیکھے جا رہی تھی۔ ’’ہم م م م… خط … رے …‘‘ اس نے کچھ کہنا چاہا لیکن زبان نے ساتھ نہیں دیا۔ وہ اس سے قبل کبھی اتنی دہشت زدہ نہ ہوئی تھی۔ پھر ٹائیگر نے ان کی طرف چند قدم بڑھائے اور جبران فیونا کی طرف کھسک گیا۔ اس کے منھ سے نکلا: ’’تت … تم ٹائیگر کی آنکھوں میں مت دیکھو۔ مم … میں … نے کہیں پڑھا تھا کہ ٹائیگر اپنی آنکھوں کے ذریعے لوگوں کو جکڑ لیتے ہیں، اگر تم آنکھیں نہیں ملاؤ گی تو یہ حملہ نہیں کرے گا۔‘‘
اس دوران فیونا نے خود کو کسی حد تک سنبھال لیا تھا، اس لیے وہ جبران کی بات پر جھنجھلا کر بولی: ’’لگتا ہے ٹائیگر کو دیکھ کر تمھاری عقل گھاس چرنے چلی گئی ہے، اگر میں اس کی طرف دیکھوں گی نہیں تو مجھے کیسے پتا چلے گا کہ وہ کب حملہ کر کے ہماری تِکا بوٹی کرنے آ رہا ہے!‘‘
’’فف … فیونا … جلدی کرو، تمھارے پاس قوتیں ہیں، تم آگ سے اس پر حملہ کر دو۔‘‘ جبران اس کی آڑ میں چھپنے کی کوشش کرتے ہوئے بولا۔ لیکن فیونا نے کہا کہ آگ روشن ہونے سے ٹائیگر دانی کی طرف مڑ سکتا ہے۔ جبران نے اگلا مشورہ دیا کہ اپنی جسامت بڑھا کر اسے دم سے پکڑ کر دور پھینک دو۔ فیونا نے اس پر اسے ڈانٹ کر چپ کرا دیا۔ اس نے سوچا کیوں کہ ٹائیگر سے بات کی جائے۔ ابھی وہ یہ سوچ ہی رہی تھی کہ ٹائیگر اچانک مڑا اور دانیال کی طرف دوڑ پڑا۔ جبران نے جبلی طور پر اطمینان کی سانس لی کیوں کہ خطرے کا رخ اب کسی اور کی جانب تھا، لیکن پھر وہ دانیال کی طرف چلا کر بولا: ’’دانی بھاگو۔ یہ تمھیں کھا جائے گا۔‘‘ لیکن دانیال نے جب ٹائیگر کو اپنی طرف رخ کرتے دیکھا تو وہ بھاگنا ہی بھول گیا۔ پتا نہیں ایک دم اسے کیا ہوا، زندگی بچانے کی بے پناہ خواہش اور قوت کی وجہ سے اسے ترکیب سوجھ گئی، اور اس نے خود سے کہا: ’’دانی، مر جاؤ!‘‘
فیونا اور جبران دیکھ رہے تھے کہ ٹائیگر کسی بھی لمحے دانیال کے قریب پہنچ پر اس پر چھلانگ دے مارے گا لیکن وہ چونک اٹھے۔ دانیال اچانک برف پر گر پڑا تھا۔ دونوں حیرت میں پڑ گئے۔ جبران کے منھ سے گھبراہٹ میں نکلا: ’’یہ … یہ دانی کو کیا ہو گیا!‘‘
’’ٹھہرو۔‘‘ فیونا پوری توجہ سے اس کی طرف دیکھنے لگی۔ ٹائیگر اس کے پاس پہنچ کر رک گیا اور اپنی تھوتھنی سے دانیال کو ایک ٹہوکا مارا۔ وہ شاید دیکھنا چاہ رہا تھا کہ دانیال زندہ ہے یا مر گیا۔ دوسری طرف دانیال کو اس کی تھوتھنی سے اٹھنے والی بدبو محسوس ہوئی اور اس نے سمجھا کہ یہ اس کا آخری وقت ہے، اور وہ اللہ کو یاد کرنے لگا۔ ایسے میں جبران نے بے اختیار ہو کر فیونا کو بازو سے پکڑ کر جھنجھوڑ دیا: ’’تم کچھ کرتی کیوں نہیں ہو، وہ دانی کو کھا جائے گا۔‘‘
فیونا چپ چاپ ٹائیگر کو دیکھے جا رہی تھی، اس کے ہونٹ بند تھے لیکن آنکھیں چمک رہی تھیں، جیسے وہ کچھ کہہ رہی ہو۔ جبران اسے حیرت سے دیکھنے لگا۔
(جاری ہے)

Comments