نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ڈریٹن کو اپنے پیچھے آوازوں کی بازگشت سنائی دے رہی تھی۔ وہ تیزی کے ساتھ اندھیرے اور ہوا دار سرنگ میں دوڑتا جا رہا تھا۔ ٹارچ کی روشنی نہ ہونے کے برابر تھی۔ آخر کار وہ سرنگ کے دہانے پر پہنچ گیا۔ جب وہ سرنگ سے باہر نکلا تو اس نے خود کو صنوبر کے جھنڈ میں پایا۔ اس نے مڑ کر ٹارچ لوچ جھیل میں پھینک دیا۔ سرنگ کا دہانہ ایک ٹیلے سے نکلا ہوا تھا، اسے ٹیلے کے اوپر چڑھنے کا راستہ نظر آیا تو بغیر کوئی دوسری سوچ، وہ اوپر چڑھنے لگا۔ ٹیلے پر چڑھنا اتنا آسان بھی نہ تھا، اسے درختوں کی جڑیں اور پتھر تھامنے پڑ رہے تھے، اور وہ ہر دو قدم بعد واپس نیچے کی طرف پھسل پڑتا تھا۔ سرنگ کے دہانے کے عین اوپر پہنچ کر اس نے کئی بڑے پتھر اٹھا کر دیکھے اور بڑبڑایا۔ ’’ہونہہ… یہ یقیناً ٹھیک رہیں گے، ان میں سے کئی ایک کے سر تو آسانی سے پھاڑ سکوں گا۔‘‘
۔۔۔۔۔
’’وہ رہا دہانہ ممی … درخت یہاں سے بھی نظر آ رہے ہیں۔‘‘ فیونا خوشی سے اچھل کر بولی اور بھاگ کر دہانے سے باہر نکلی۔ عین اسی وقت ڈریٹن نے اسے نشانہ بنایا لیکن بھاری پتھر اس کی کھوپڑی کی بجائے اس کے پیروں میں آ گرا۔ وہ چیخ مار کر اچھلی۔ جیک قریب تھا، چلا کر بولا: ’’سنبھل کر فیونا…‘‘ یہ کہہ کر اس نے فیونا کو بازو سے پکڑ کر اندر کھینچ لیا۔
’’یہ کیا تھا؟‘‘ مائری کے لہجے میں خوف تھا۔ انھیں اندھیرے میں کچھ نظر نہیں آیا تھا۔ جیک انھیں چپ رہنے کا اشارہ کر کے احتیاط کے ساتھ باہر نکلا اور اوپر دیکھنے لگا۔ ایک پتھر اس کے بالوں کو چھوتا ہوا زمین پر لگا۔ وہ تیزی سے پلٹا اور بولا: ’’اوپر کوئی ہے جو نہیں چاہتا کہ ہم سرنگ سے باہر نکلیں۔‘‘
اینگس نے غار کی چھت کی طرف منھ اٹھا کر کہا: ’’یہ ڈریٹن ہے … صرف وہی تھا جو غار میں موجود تھا، اس لیے یہ وہی ہے۔ یہی اس کا اسٹائل ہے، وہ بزدل ہمارا سامنا نہیں کرنا چاہتا۔‘‘
صورت حال ایسی تھی کہ ان میں سے جو بھی باہر نکلنے کی کوشش کرتا، اوپر سے ایک پتھر آ جاتا۔ ایسے میں جونی کو ایک خیال سوجھا۔ ’’اس طرح تو ہم باہر نہیں نکل سکیں گے، اس لیے میں اور جمی واپس قلعے جاتے ہیں، اس وقت تک تم میں سے کوئی نہ کوئی کچھ کچھ دیر بعد باہر نکل کر اسے مصروف رکھے، ہم پیچھے سے آ کر اسے بے خبری میں پکڑ لیں گے۔‘‘
باقیوں کا اس کا خیال پسند آیا، اور وہ دونوں الٹے قدموں لوٹ گئے، جب کہ فیونا نے پرجوش ہو کر کہا: ’’میں دوڑ کر باہر نکلتی ہوں، میں چھوٹی ہوں اس لیے نشانہ بنانا آسان نہیں ہوگا۔‘‘ لیکن مائری جلدی سے بولیں: ’’میں ایسا بالکل نہیں سمجھتی، میں ہرگز نہیں چاہتی کہ تمھارا سر پھٹا ہوا دیکھوں، سمجھی!‘‘
’’لیکن ممی، پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے، میں بہت تیز دوڑ سکتی ہوں، وہ چاہے بھی تو مجھے نشانہ نہیں بنا سکتا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ انتظار کیے بغیر دوڑتی ہوئی باہر نکل گئی۔ توقع کے مطابق اوپر سے آیا ہوا پتھر اسے چھو نہ سکا۔ وہ درختوں کے درمیان کھڑے ہو کر اندھیرے میں غار کے اوپر دیکھنے کی کوشش کرنے لگی۔ آخر کار، جب اسے ایک انسانی ہیولا نظر آ گیا تو وہ چلا کر بولی: ’’کیا یہ تم ہی ہو احمق ڈریٹن… یہی نام ہے نا تمھارا … اب کس بات کا انتظار ہے، پھینکو پتھر، مجھ سے مزید صبر نہیں ہو رہا!‘‘
فیونا کی طرف سے طنز کے تیز آئے تو ڈریٹن اپنے مزاج کے عین مطابق آگ بگولہ ہو گیا، اور نہایت غضب ناک آواز میں غرایا: ’’چیونٹی کی نسل، تم آئی ہو میرے مقابلے پر، تمھیں تو ابھی مسل کر رکھ دوں گا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے یکے بعد دیگرے کئی پتھر فیونا کی طرف اچھالے لیکن اس نے بہ آسانی خود کو بچا لیا۔
’’تمھاری آواز جانی پہچانی ہے، کیا میں تمھیں جانتی ہوں بدمعاش؟ تم بچوں کی طرح چھپے ہوئے کیوں ہو، اور سامنے کیوں نہیں آ رہے؟‘‘ تین اور پتھر ہوا میں سنسناتے ہوئے اس کی طرف بڑھے، لیکن فیونا ایک طرف ہو گئی اور پتھر آگے جا کر گرے۔ وہ خوشی سے اچھلتے ہوئے اسے مزید غصہ دلانے کے لیے بولی: ’’آہا … تمھارے پتھر بھی تمھاری طرح بے وقوف ہیں، مجھے دیکھتے ہوئے پاس سے گزر جاتے ہیں اور مجھے چھو بھی نہیں پاتے!‘‘
یہ سن کر ڈریٹن کے منھ سے خوف ناک غراہٹ نکلی: ’’میں ابھی تمھیں مچھر کی طرح مسل کر رکھ دیتا ہوں۔‘‘ اور پتھروں پر اچھلتا، پھسلتا نیچے اتر کر فیونا کی طرف بڑھنے لگا۔