نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے
’’ارے یہ پتے کام کر رہے ہیں۔‘‘ وہ خوشی سے چلا کر بولی۔ اس نے چند اور پتے پھینکے۔ بچھو ایک دوسرے پر چڑھ کر کاٹنے لگے۔ شاید انھیں بونے پریشان کر دیا تھا۔ وہ ہمت کر کے چند قدم اندر چلی گئی۔ پھر اس نے چھت کی طرف دیکھا، اس کی آنکھوں میں خوف تھا۔ اس کا دل دھڑک کر رہ گیا۔ وہاں کئی بچھو ایک دوسرے سے لٹک کر جھول رہے تھے اور ان کے ڈنک فرش کی طرف لپک رہے تھے۔ اس نے مزید پتے پھینکے اور مزید راستہ بن گیا۔ اب صرف دو قدم کا فاصلہ تھا اور اس کے پاس بہت کم پتے رہ گئے تھے۔ آخرکار اس نے اینٹ پر بھی چند ٹکڑے پھینکے۔ بچھوؤں نے پیچھے کی طرف سمٹ کر اینٹ کو چھوڑ دیا۔ پتوں کی بو نے انھیں بری طرح پریشان کر دیا تھا اور وہ غیض و غضب میں ایک دوسرے کو کاٹ رہے تھے۔
فیونا نے ڈرتے ڈرتے جھک کر اینٹ اٹھا لی اور تیزی سے مڑی۔ اس کے سامنے دروازے تک راستہ بنا ہوا تھا جس کے دونوں طرف سیاہ بچھو کلبلا رہے تھے۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، باہر کی طرف دوڑ لگا دی۔ جبران اور دانیال کے پاس پہنچ کر وہ بے اختیار گر پڑی اور پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
’’مجھے یقین نہیں آ رہا ہے کہ میں نے اینٹ حاصل کر لی ہے۔‘‘ اس نے بیٹھ کر آنسو پونچھے۔ پھر اس کے ہونٹوں پر کامیابی کی مسکراہٹ جھلملانے لگی۔
’’مڑ کر دیکھو فیونا، اب وہ راستہ بھی نظر نہیں آ رہا، بچھوؤں نے اسے بھی ڈھک دیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب بچھو اس بوٹی کی بو کو برداشت کرنے کے قابل ہو گئے ہیں۔‘‘ دانیال نے کہا۔ فیونا مڑ کر دیکھنے لگی۔ اچانک جبران چیخا: ’’ہلنا مت فیونا… تمھارے بالوں میں ایک بچھو ہے۔‘‘
فیونا کے منھ سے دبی دبی چیخ نکل گئی۔ ’’جبران… اسے میرے بالوں سے ہٹا دو، ورنہ یہ مجھے کاٹ لے گا۔ کیا پتا اس پر کسی قسم کا جادو ہوا ہو اور میں مر جاؤں، یا اس کے زہریلے ڈنک سے میں بھی بچھو بن جاؤں۔‘‘
’’تم باتیں نہ کرو۔ میں لکڑی کی کوئی چھڑی ڈھونڈٹا ہوں۔ اس کے ذریعے بچھو کو گرانے کی کوشش کرتا ہوں۔‘‘ جبران بولا اور ادھر ادھر چھڑی تلاش کرنے لگا۔ ذرا دیر بعد اسے لکڑی کی ایک چھڑی مل گئی۔ وہ فیونا کے پاس چلا آیا۔ ’’جبران احتیاط سے… بچھو کو میرے سر پر مارنے کی احمقانہ کوشش مت کرنا۔‘‘ فیونا نے گھبرا کر کہا۔
’’میں بے وقوف نہیں ہوں۔‘‘ جبران نے تیز لہجے میں کہا اور لکڑی کی چھڑی اس کے سر کے اوپر لے گیا۔ بچھو نے اسے محسوس کر لیا۔ اس نے ڈنک اوپر کی طرف اٹھا لیا۔ جبران نے نہایت احتیاط کے ساتھ چھڑی بچھو کے بہت قریب کر دی۔ بچھو نے اس پر ڈنک مارا اور پھر اس سے چمٹ گیا۔ جبران نے اطمینان کے ساتھ چھڑی زمین پر پھینک دی۔ فیونا نے کافی دیر سے سانس روکی ہوئی تھی، بچھو ہٹتے ہی اس نے گہری گہری سانسیں لیں۔ بچھو چھڑی چھوڑ کر تیزی سے خانقاہ کے اندر چلا گیا تھا۔ دانیال نے اسے ایک نظر دیکھتے ہوئے کہا :’’اب اس ماربل اینٹ کو کیسے توڑیں، یہ تو کافی مضبوط نظر آ رہی ہے۔‘‘
’’ہمیں کسی ہتھوڑی کی ضرورت ہوگی۔‘‘ جبران نے اینٹ ہاتھ میں لے کر تولتے ہوئے کہا۔ اچانک فیونا نے خوف زدہ لہجے میں کہا: ’’ٹھہرو، تم لوگ بھول گئے ہو۔ ایک اور دام ابھی باقی ہے۔ مجھے یقینی طور پر اس کا علم نہیں ہے لیکن جب اس اینٹ کو توڑا جائے گا تو تیسرا اور آخری پھندا ہمارے سامنے آ جائے گا۔‘‘
فیونا کے منھ سے یہ الفاظ نکلنے تھے کہ جبران نے اینٹ کو ایک بار پھر ہاتھوں سے چھوڑ دیا۔ اینٹ گھاس والی زمین پر ٹپکا کھا کر فیونا کے قدموں کے پاس رک گئی۔ ’’اوہ… تم نے اسے پھر گرا دیا، یہ دوسری مرتبہ ہے، بہت ڈرپوک ہو۔‘‘ دانیال نے اسے ٹوکا۔
’’وہ رہے تینوں بچے…‘‘ اچانک انھیں ایک افسر کی آواز سنائی دی۔ ’’وہ خانقاہ کے اندر ہیں، ٹھہرو بچو… بھاگنے کی کوشش مت کرنا۔‘‘
’’ہمیں اس اینٹ کے ساتھ ہی واپس ساحل پر جانا ہوگا۔ گھر پہنچنے کے بعد ہی ہم قیمتی پتھر کو اینٹ سے باہر نکالنے کا کوئی راستہ ڈھونڈیں گے۔‘‘ جبران نے کہا اور لپک کر اینٹ اٹھا لی۔ تینوں ایک بار پھر پولیس سے بچنے کے لیے دوڑ پڑے۔ پولیس اہل کار جیسے ہی خانقاہ کے قریب پہنچے ان میں سے کسی نے چیخ کر کہا: ’’بچھو… ارے یہاں تو ہزاروں بچھو ہیں۔ بچوں کو جانے دو۔ ان بچھوؤں سے نمٹنا زیادہ ضروری ہے۔ اگر یہاں سیاح آ گئے تو کیا ہوگا؟‘‘ وہ تینوں رک گئے اور انھوں نے بچوں کا تعاقب چھوڑ دیا۔
فیونا ایک درخت کے پیچھے سے نکل کر بولی: ’’شکر ہے، یہ خطرناک بچھو بھی ہمارے کچھ کام آئے۔ میں تو سمجھ رہی تھی کہ پولیس اہل کار ہمارے پیچھے آنے کی پھر زحمت نہیں کریں گے۔‘‘
تینوں سیڑھیوں کی طرف دوڑنے لگے۔ انھوں نے ایسے راستے کا انتخاب کیا جہاں نکولس سے ان کا سامنا ہونے کا امکان نہیں تھا۔
(جاری ہے….)