نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے لنک کھولیے
پیر کی صبح گیل ٹے میں بڑی مصروفیت بھری ہوتی ہے، بچے اسکول کی طرف جا رہے ہوتے ہیں، اور ان کے والدین کام کی جگہ کو محو سفر ہوتے ہیں، کسی کا رخ گاؤں کی طرف تو کسی کا شہر کی طرف ہوتا ہے۔ اکثر لوگ ریل گاڑی سے سفر کرتے ہیں۔ ایسے میں ڈریٹن پر جب سورج کی شعاعیں پڑنے لگیں تو اس نے انگرائی لیتے ہوئے اٹھنے ہی میں غنیمت جانی۔ سستی اتارتے ہوئے اس نے کھڑکی سے باہر جھانکا۔
’’شکر ہے بارش نہیں ہو رہی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھا اور لیپ ٹاپ نکال کر تمام تصاویر اپ لوڈ کر لیں جو اس نے اینگس کے گھر میں قدیم کتاب کی اتاری تھیں۔ کمرے میں ٹیلی فون لائن دیکھ کر اور خوش ہوا، اور ساری تصاویر انٹرنیٹ کے ذریعے ایک پرانے دوست کو بھیج دیں، اور ہدایات کے ساتھ یہ پیش کش بھی کی کہ اگر وہ چوبیس گھنٹوں میں یہ تصویریں اس کے پاس پہنچا دے تو اسے بڑا انعام ملے گا۔ اس کے بعد وہ نیچے اترا، اسے اس بات کی ذرا بھی فکر نہیں تھی کہ ٹیلی فون لائن سے انٹرنیٹ منسلک کرنے پر جو بھاری بل آئے گا وہ ایلسے کے گلے میں پڑے گا۔ جیسے ہی وہ نیچے اترا، اس کا سامنا ایلسے سے ہوا۔ اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار تھے۔
’’اوہ تم کیسے ہو ڈریٹن۔ افسوس یہاں کوئی چور گھس آیا تھا۔ آپ کا بٹوہ تو محفوظ ہے نا، یا آپ کا بھی چوری ہو گیا؟‘‘
’’نہیں، میرا بٹوہ میری جیب میں ہے۔‘‘ اس نے کہا اور شیطانی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر کھیلنے لگی۔ اس نے رات ہی کو تمام بٹوے خالی کر کے انھیں کچرے میں پھینک دیا تھا۔ ’’صرف اتنا ہی نہیں ڈریٹن۔‘‘ ایلسے کہنے لگی: ’’کوئی چور اکثر لوگوں سے زیورات بھی کر چکا ہے۔ اب جب تک چور نہ پکڑا جائے کوئی بھی شے محفوظ نہیں ہے۔‘‘
اس نے رات ہی کو چرایا ہوا زیور ایک درخت کی جڑ میں دبا دیا تھا، اور فی الحال محفوظ تھا۔ اس نے اداکاری کرتے ہوئے کہا: ’’یہ تو بہت برا ہوا ہے ایلسے، اگر میں آپ کے کسی کام آ سکتا ہوں تو مدد کے لیے ضرور کہیے گا۔‘‘
ناشتے کی میز پر اسے چاروں طرف ایک ہی موضوع پر گفتگو سننے کو ملی۔ بیڈ اینڈ بریک فاسٹ میں آنے والے سب ہی ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے۔ وہ جلدی جلدی ناشتہ کر کے اٹھا اور وہاں سے نکلنے لگا۔ دروازے کے قریب اس نے ایلسے کو روک کر پوچھا: ’’آپ کو یہ پوچھے جانے پر بڑی حیرت ہو گی لیکن میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اینگس اپنے رشتہ داروں میں کس کے ساتھ زیادہ محبت کرتا ہے، خصوصاً کوئی چھوٹی لڑکی؟ دراصل میں اس کے لیے ایک تحفہ خریدنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’اس کی بھتیجی فیونا۔‘‘ ایلسے نے جواب دیا۔ ’’وہ زیادہ تر وقت اس کے ساتھ ہی گزارنا پسند کرتا ہے۔ جب سے فیونا کے ڈیڈی دنیا سے گزر گئے ہیں، تب سے وہی اس کی سرپرستی کر رہا ہے۔ کیا آپ اینگس کے گھر جائیں گے؟‘‘
’’میں کل گیا تھا لیکن وہ گھر پر نہیں تھے، جیسا کہ آپ نے پیشگوئی کی تھی۔ میں نے ان کے لیے پیغام چھوڑا۔ ویسے آپ کیوں پوچھ رہی ہیں؟‘‘ ڈریٹن بولا۔
’’بس ایسے ہی۔‘‘ ایلسے کہتے کہتے رک گئی۔
’’ٹھیک ہے۔‘‘ ڈریٹن نے کہا۔ ’’فیونا کہاں رہتی ہے، میں اس سے ملنے کے لیے بے تاب ہوں۔‘‘ اس نے جھوٹ بولا۔
’’وہ اپنی ممی مائری کے ساتھ رہتی ہے۔‘‘ ایلسے نے اس کے گھر کا پتا بتا دیا۔
’’بہت بہت شکریہ ایلسے۔ آپ میری بہت کام آئی ہیں۔‘‘ اس نے کہا اور طے کر لیا کہ واپسی میں اسے گل دستہ تحفے میں دے گا، تاکہ بڑھیا اور بھی اس کے کام آ سکے۔ وہاں سے نکلنے کے بعد وہ فوراً اس درخت کے نیچے پہنچ گیا، اور زمین کھود کر زیور نکالا اور پوسٹ آفس جا کر اسے ٹرورو میں اپنے گھر بھیج دیا۔ اس نے لفافے کے اوپر اپنی ماں کے لیے لکھا کہ وہ اسے کھولنے کی کوشش نہ کرے ورنہ یہ اس کے لیے اچھا نہیں ہوگا، اور وہ چند ہفتوں میں گھر پہنچ جائے گا۔
فیونا کا گھر ڈھونڈنا مشکل نہ تھا۔ ڈریٹن گلیوں میں گھوم پھر کر تلاش کرنے لگا۔ جلد ہی اسے وہ گھر مل گیا۔ اس کے قریب سے گزرتے ہوئے اس نے محسوس کیا کہ گھر میں کوئی نہیں ہے۔ وہ ایک کھڑکی کے پاس جا کر اندر جھانکنے لگا۔
(جاری ہے)