نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
پچھلی تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے
’’میں نے وہاں ٹارچ کی جھلملاہٹ دیکھی ہے۔‘‘ اینگس پرجوش ہو کر بولے: ’’ضرور نیچے کوئی ہے۔‘‘
ایسے میں جونی نے سب کو مخاطب کیا: ’’میرے پیچھے آؤ، اور دیواروں کے قریب رہو۔ کوئی چیز دیکھو تو اسے نظر انداز کر دو، یہ جگہ صدیوں تک خالی رہی ہے۔ تیز بالکل مت چلو، اگر کوئی آواز سنو تو رک جاؤ۔‘‘
اس کی ہدایات سن کر مائری نے جلدی سے پوچھا: ’’کیسی آوازیں؟‘‘ ’’جانوروں کی… دیکھو، میں تم لوگوں کو خوف زدہ نہیں کرنا چاہتا لیکن چوہوں، چمگادڑوں، بھیڑیوں اور مکڑیوں وغیرہ سے مسائل ہو سکتے ہیں، اس لیے ایک دوسرے کے قریب رہو۔ میں تم سب کی رہنمائی کروں گا۔ مائری تم میرے پیچھے آنا، اس کے بعد فیونا اور پھر جیک، جیزے اور جمی آئے گا۔‘‘
یہ کہہ کر وہ نیچے کی سیڑھیاں اترنے لگے۔ سب نے اپنا اپنا ٹارچ اپنے سامنے رکھا تھا۔ مائری نے فیونا کے کان میں سرگوشی کی: ’’مجھے چمگادڑوں سے سخت نفرت ہے۔‘‘
کافی دیر تک سیڑھیاں اترنے کے بعد فیونا نے تھک کر کہا: ’’یہ تو شیطان کی آنت کی طرح طویل ہیں، کب ختم ہوں گی یہ۔ کیا یہ آپ نے بنوائی ہیں جونی؟‘‘
’’نہیں فیونا، انھیں کنگ کیگان نے مقامی دیہاتیوں سے بنوایا تھا اور انھیں اچھی خاصی مزدوری دی گئی تھی، ویسے ہم پہنچنے ہی والے ہیں۔‘‘
دس منٹ بعد وہ غار میں پہنچ گئے۔ اینگس حیرت سے منھ کھول کر پتّھر کے اس کمرے کو دیکھنے لگا جہاں کئی سرنگیں بنی ہوئی تھیں، وہ بات کرتے تو گونجنے لگتی۔ جونی کہنے لگا کہ اسے بھی نہیں پتا کہ یہ سرنگیں درست طور پر کہاں کہاں جاتی ہیں، تاہم ایک سرنگ ایسی ہے جو ایک اور جزیرے پر جا نکلتی ہے، اور ایک سرنگ واپس قلعے میں لے کر جاتی ہے، ایک بھول بھلیاں جاتی ہے اور باقی آس پاس علاقوں میں جا نکلتی ہیں۔ اس نے ایک سرنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’مجھے صرف اس سرنگ کا پتا ہے کہ اگر کسی کو فرار ہونا ہو تو اس کے لیے یہ والی سرنگ ہے جو سب سے مختصر ہے اور جھیل لوچ کے کنارے ایک ٹیلے پر جا نکلتی ہے۔‘‘
’’تو پھر ہمیں اسی سرنگ میں داخل ہونا ہے۔‘‘ مائری نے فوراً کہا اور ٹارچ کی روشنی میں غار کی چھت اور دیواریں دیکھنے لگیں۔ ’’ایسا لگتا ہے کہ یہاں کبھی دریا بہتا تھا۔‘‘ جونی نے اثبات میں سر ہلایا اور بتانے لگا کہ کنگ کیگان کی کشتیاں یہیں کھڑی رہتی تھیں، اور وہ بھی ان میں سے ایک کشتی استعمال کرتا تھا جو اب کہیں نظر نہیں آ رہی ہیں۔ جونی نے بتایا کہ جس دن کنگ کیگان کا قتل ہوا، وہ یہاں نیچے آیا تھا اور ایک کشتی پر بیٹھ کر جھیل کی طرف نکل گیا تھا۔
مائری کو ڈریٹن بدمعاش کو پکڑنے کی جلدی تھی، لیکن اچانک اس کی نظر فرش پر مکڑی پر پڑ گئی۔ فیونا نے ٹارچ کی روشنی اس پر ڈالی اور کہا کہ یہ ٹرنٹولا ہے لیکن اس نے حیرت کا اظہار کیا کہ اسکاٹ لینڈ میں ٹرنٹولا بھی ہیں۔ جونی نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ جب کیگان اپنی سرزمین چھوڑ کر خزانے اور ساز و سامان کے ساتھ یہاں آیا تھا تو یقیناً اس میں یہ ٹرنٹولا بھی آ گئی ہو گی اور ان غاروں میں ان کی افزائش ہوئی ہوگی۔ اچانک مائری چلائی: ’’یہاں تو ہزاروں کی تعداد میں مکڑیاں سرنگ سے نکل کر غار میں آ رہی ہیں۔‘‘
جونی نے کہا کہ اب یہاں سے جلدی نکلنا ہے، اس نے سب کو ہوشیار کرایا کہ جیسے ہی کسی سرنگ میں مکڑیوں کا نشان نظر آئے، اس سے فوری طور پر واپس نکلنا ہے۔ مائری ایک سرنگ میں داخل ہوئی اور ٹارچ کی روشنی میں جائزہ لے کر بولی کہ یہ صاف ہے۔ فیونا کچھ سونگھ کر کہنے لگی: ’’یہاں تو عجیب سی سڑاند ہے، دیواریں لیس دار مادے سے لتھڑی ہوئی ہیں۔ مجھے کچھ آوازیں بھی سنائی دے رہی ہیں، کیا ہمیں رک جانا چاہیے؟‘‘
وہ بھی آوازیں سننے کی کوشش کرنے لگے۔ فیونا نے کہا کہ کیا یہ ٹرنٹولا کی آوازیں ہیں، چمگادڑوں کی یا پھر بھیڑیے کی!
اینگس نے کافی دیر بعد منھ کھولا: ’’مجھے حیرت ہو رہی ہے فیونا، تم نے اپنی مہمات کی جو کہانیاں سنائی ہیں، اس کے سامنے تو یہ سب بہت معمولی چیزیں ہیں۔‘‘
فیونا یہ سن کر چونک اٹھی اور جلدی سے کہا: ’’ارے ہاں، میں تو بڑے بڑے آکٹوپس سے لڑی ہوں، بڑے بڑے بچھوؤں اور ٹرالز سے مقابلہ کر چکی ہوں، یہ چند چمگادڑ کیا چیز ہیں!‘‘
’’ٹرالز، بچھو …‘‘ مائری ایک دم مڑ کر بولیں: ’’مجھے تو اس کے بارے میں کسی نے نہیں بتایا۔‘‘
فیونا اپنی ممی کی تیوریاں دیکھ کر آگے کی طرف دوڑ کر بولی: ’’بعد میں بتا دوں گی ممی، اس وقت تو اس بدمعاش کو پکڑنا ہے نا!‘‘
(جاری ہے…)

Comments