نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

فیونا کی آواز ان دونوں کی سماعتوں سے ٹکرائی: ’’گلیشیئر کے اندر یہ رنگ کہاں سے آئے!‘‘ اس نے برف کی ایک قلم کو چھو کر دیکھا اور پھر بولی: ’’یہ تو برف ہی کی طرح ہے، سرد لیکن رنگ ہلکا سبز دکھائی دے رہا ہے۔‘‘ جبران نے فوراً کیمرہ نکال کر برف کی رنگین قلموں کی تصویر اتاری اور کیمرہ واپس گلے میں لٹکا لیا۔ فیونا نے اوپر دیکھا تو دراڑ سے روشنی چھن کر اندر آ رہی تھی۔ برف کی قلمیں چونے کے پتھر جیسے سبز، سبز مائل نیلے، نہایت ہلکے سبز رنگ، نیلے آسمانی رنگ، سرخ مائل پیلے رنگ، خاکستری اور جامنی رنگ کی دکھائی دے رہی تھیں۔ سارے ہی رنگ بہت دل کش تھے۔ دانیال اِدھر اُدھر گھوم کر مزید رنگ تلاش کرنے لگا اور جلد ہی اسے ہلکے گلابی اور انگوری رنگ کی قلمیں بھی نظر آ گئیں۔ وہ بولا: ’’یہ نظارہ خوب صورت اور دل کش تو بہت ہے لیکن پتا نہیں ہمارے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے، میرا دل اچانک گھبرانے لگا ہے۔‘‘
وہ چپ ہوا تو دونوں میں سے کوئی بھی نہیں بولا۔ اسے اچانک کچھ یاد آیا تو فیونا کی طرف مڑا۔ ’’فیونا، یاد ہے، میں نے تمھیں تحفے میں ایک نیکلس دیا تھا۔‘‘
’’ہاں …‘‘ وہ حیران ہوئی، پھر مسکرا کر شرٹ سے نیکلس نکال کر دکھایا: ’’یہ رہا۔‘‘
نیکلس دیکھ کر دانیال کی آنکھوں میں سکون اتر آیا۔ ’’پتا ہے، یہ چھوٹا سا چوہا بہت لکی ہے، ہو سکتا ہے ہمیں آج اس کی ضرورت پڑے۔‘‘
’’ارے دانی، تم تو برف کے اس غار میں داخل ہونے سے پہلے بہت بہادر بن رہے تھے، اب کیا ہو گیا تمھیں!‘‘ فیونا نے دونوں ہاتھ پہلوؤں میں رکھ کر اسے چھیڑنے کے لیے کہا۔ جبران پاس آ کر بولا: ’’تم دونوں کیا باتیں کر رہے ہو، مجھے تو یہ جگہ بہت جادوئی سی لگتی ہے، کتنی پراسرار جگہ ہے یہ۔‘‘
فیونا ہنس پڑی۔ ’’جادوئی … پر اسرار … ہاہاہا!‘‘ ہنستے ہنستے وہ گھومی اور پھر یکایک نہ صرف اس کا جسم ایک جگہ ٹھہر گیا بلکہ ہنسی بھی رک گئی۔ وہ دونوں سوالیہ نگاہوں سے اس کی دیکھنے لگے۔ ’’مم … میرے چہرے سے کچھ ٹکرایا تھا ابھی۔‘‘ وہ ہکلا کر بولی۔
’’کک … کیا …؟‘‘ دانیال نے بالکل اسی کے انداز میں مذاق اڑایا اور ہنسا۔
’’میں مذاق نہیں کر رہی ہوں۔‘‘ فیونا واقعی سنجیدہ نظر آ رہی تھی۔ ’’دیکھو، دیکھو!‘‘ وہ اچھل کر بولی۔ ’’ابھی میرے سامنے سے کچھ گزرا ہے، کیا تم دونوں نے نہیں دیکھا؟‘‘ اس کی آنکھوں میں پریشانی کی جھلک نمایاں ہو گئی تھی۔
’’ارے ہاں، میں نے بھی دیکھا۔ یہ تو کسی پری کی طرح تھی۔‘‘ جبران پرجوش ہو کر بولا: ’’میرا خیال ہے ہمیں یہاں سے فوراً نکل جانا چاہیے اب۔ میں نے اندر آنے سے پہلے کہا تھا کہ کوئی عجیب بات ہو جائے تو غار سے نکلیں گے۔‘‘
’’یہ تم دونوں کیا پری پری کر رہے ہو۔ گلیشیئر کے اندر پری کہاں سے آ گئی؟‘‘ دانیال کو لگا وہ دونوں مذاق کر رہے ہیں۔
’’اُدھر دیکھو، وہ کیا ہے؟‘‘ جبران نے ایک طرف اشارہ کیا اور تینوں ایک قطار میں کھڑے ہو کر اُس طرف دیکھنے لگے۔ ان کے سامنے ہوا میں ایک ننھی پری اپنے برف ایسے پر پھڑپھڑا رہی تھی، اور اس پھڑپھڑاہٹ سے ہلکی ہلکی آواز پیدا ہو رہی تھی۔
’’برف کی پری!‘‘ دانیال کے منھ سے ایسے نکلا جیسے وہ خواب دیکھ رہا ہو۔ ’’اف میرے خدا، برف کی بھی پری ہوتی ہے، اور ایسے ہوتی ہے!‘‘
وہ دیکھ رہے تھے کہ پری خود بھی سفید تھی اور اس کے کپڑے اور لمبے بال بھی سفید اور چمک دار تھے۔ اس کے سر پر برف سے بنا ایک ننھا سا چمک دار تاج سجا ہوا تھا۔ وہ اڑ کر ان کے قریب آئی اور پھر انھیں پری کی آواز سنائی دی: ’’میرا نام کرسٹل فیری ہے۔‘‘
وہ تینوں ایسے چونکے جیسے خواب سے جاگے ہوں۔
(جاری ہے۔۔۔)

Comments