تازہ ترین

سیشن جج وزیرستان کو اغوا کر لیا گیا

ڈی آئی خان: سیشن جج وزیرستان شاکر اللہ مروت...

سولر بجلی پر فکسڈ ٹیکس کی خبریں، پاور ڈویژن کا بڑا بیان سامنے آ گیا

اسلام آباد: پاور ڈویژن نے سولر بجلی پر فکسڈ...

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

نوّے ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

اس ناول کی گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے

’’ہمیں شاپنگ کی ضرورت ہے،‘‘ دانیال بولا: ’’ہم یہاں اس جزیرے پر ان کپڑوں میں نہیں گھوم پھر سکتے۔ میرے کپڑوں سے سمندر جیسی بو آ رہی ہے، مجھے اپنے بالوں میں برش بھی کرنا ہے۔‘‘

’’ٹھیک ہے، چلو پہلے شاپنگ کرتے ہیں۔‘‘ فیونا نے کہا۔ تینوں لفٹ کے ذریعے نیچے اترے تو فیونا بولی: ’’یہاں ذرا ٹھہرو، اور کاؤنٹر والے شخص پر نظر رکھو، جیسے ہی وہ ادھر ادھر کسی کام میں لگ جائے، تب فوراً باہر نکلو۔ میں نہیں چاہتی کہ وہ مجھ سے والدین کے بارے میں پوچھے۔‘‘

انھیں زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑا، ایک نوجوان جوڑا آ کر کاؤنٹر کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ تینوں تیزی کے ساتھ آگے بڑھے اور ان کی آڑ میں برآمدے سے ہوتے ہوئے ہوٹل سے باہر نکل گئے۔ سڑک پر آتے ہی جبران بولا: ’’ہوٹل کے برآمدے میں اتنی عجیب و غریب اور خوب صورت چیزیں ہیں کہ وہاں سے نکلنے کو دل ہی نہیں کرتا۔‘‘ فیونا نے ہنس کر اس کی تائید کی، اور کہا کہ جب کاؤنٹر والا چھٹی کرے گا تو وہ برآمدے میں وقت گزاریں گے۔

وہ تینوں سڑک کنارے دکانوں کے اندر جھانکنے لگے، وہ دکانوں میں سجی اشیا دیکھنے میں اتنے مگن تھے کہ راستے میں کھڑے اس شخص کو بھی نہیں دیکھ سکے جو رقم گن رہا تھا۔ جبران اچانک اس سے جا ٹکرایا۔ راستے میں کھڑے شخص نے لپک کر اسے گردن سے پکڑ لیا۔ ’’کیا کر رہے ہو، اندھے ہو کیا…!‘‘ وہ شخص بھڑک کر بولا: ’’اچھا تو تم میرے پیسے چرانا چاہتے ہو؟‘‘ جبران یہ دیکھ کر گھبرا گیا اور گڑگڑانے لگا: ’’نن … نہیں جناب، میں غغ … غلطی سے ٹکرایا!‘‘

اس دوران دانیال اور فیونا بھی ان کی طرف متوجہ ہو گئے، اس شخص نے دونوں کو گھور کر دیکھا اور ڈپٹ کر پوچھا: ’’تم دونوں کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘

’’کک … کچھ نہیں۔‘‘ فیونا ایک دم گھبرا گئی: ’’آپ اسے چھوڑ دیں، جو کچھ ہوا وہ ایک حادثہ تھا۔‘‘

’’اوہو…‘‘ وہ طنزیہ انداز میں بولا: ’’تم تو بڑی بہادر لڑکی ہو۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے جبران کو دھکا دے کر پیچھے گرا دیا اور وہ بے چارا چاروں شانے چت ہو گیا۔ اس کے منھ سے بے ساختہ چیخ نکل گئی۔

’’میں سمجھتا ہوں تم سب کی چالاکی کو۔‘‘ وہ غرّا کو بولا۔ ’’تم پر کڑی نظر رکھوں گا میں۔ اگر تم پھر میرے راستے میں آئے تو تمھاری خیر نہیں ہے، مجھ سے دور ہی رہنا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ قہقہہ لگاتا ہوا چلا گیا۔ اس کے جاتے ہی دونوں دوڑ کر جبران کے پاس آ گئے اور اسے اٹھایا۔ فیونا اچانک بولی: ’’حیرت ہے اس شخص کا لہجہ بالکل انگریزوں والا تھا۔‘‘

’’وہ بدمعاش گینڈا تھا۔‘‘ جبران غصے میں بولا۔ کچھ دیر تک وہ اس ناخوش گوار واقعے پر تبصرے کرتے رہے اور پھر شاپنگ کی طرف متوجہ ہو گئے۔ ایک دکان سے فیونا نے اپنے لیے گلابی رنگ کا سوٹ خریدا جس پر جگہ جگہ سوزن کاری سے اسٹار فش بنائی گئی تھی۔ دانیال نے نیلے رنگ کی مختصر پینٹ اور سفید ٹی شرٹ اور ایک عدد بالوں کا برش خرید لیا۔ اس کی ٹی شرٹ پر سیچلز کا لفظ لکھا ہوا تھا۔ جبران نے ہلکے سبز رنگ کی مختصر پینٹ پسند کی، اس نے بھی سفید ٹی شرٹ خریدی جس پر کھجور کے درخت کی تصویر تھی۔ تینوں نے اپنے لیے چپل بھی خریدی، اور اس کے بعد وہ ہوٹل واپس آ گئے اور کپڑے بدل لیے۔ انھوں نے پرانے کپڑے یونہی بستروں پر پھینک دیے۔ نئے کپڑوں میں وہ زیادہ بہتر محسوس کر رہے تھے، تینوں ہوٹل سے پھر نکل آئے، اس وقت موسم میں بھرپور نمی تھی، فیونا نے کہا: ’’ہمیں ایک کشتی کرائے پر لینی ہوگی، سلہوٹ آئس لینڈ جانے کے لیے ہم کسی ٹور گروپ کے ساتھ نہیں جائیں گے، چلو پہلے یہ کام کرتے ہیں۔‘‘
انھوں نے ایک پرائیویٹ کشتی بُک کر لی تو ان کے پاس ایک گھنٹہ تھا، جس کے بعد ہی کشتی نے روانہ ہونا تھا۔ ایسے میں جبران بولا: ’’میرے پاس ایک زبردست آئیڈیا ہے!‘‘

(جاری ہے…)

Comments

- Advertisement -