نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ڈریٹن کیشائر روڈ پر مائری کے گھر کی طرف رواں دواں تھا، اور سوچ رہا تھا کہ اچھا ہے سب لوگ کام پر چلے گئے ہیں۔
پچھلی تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے
ذرا دیر بعد وہ مائری کے گھر کے پچھواڑے پہنچ گیا۔ نہ صرف دروازہ بلکہ تمام کھڑکیاں بھی بند تھیں۔ وہ ذرا بھی پریشان نہ ہوا، کیوں کہ اس طرح کے بند دروازے اس کے لیے کھولنا ذرا بھی مشکل نہ تھا، لہٰذا کچھ ہی دیر میں اس نے دروازہ کھول لیا۔ اندر داخل ہونے کے بعد اس نے احتیاطاً بلند آواز سے کہا: ’’کوئی ہے گھر میں؟‘‘
اس کا خیال تھا کہ اگر کسی نے جواب دیا تو وہ فوراً بھاگ جائے گا لیکن گھر میں کوئی نہیں تھا۔ اس نے گھوم پھر کر دیکھا، سارے گھر کو پھر سے درست کر دیا گیا تھا، ہر چیز اپنی جگہ سلیقے سے سجا دی گئی تھی۔ وہ زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ بڑبڑایا: ’’میرے لیے تو بہت شرم کی بات ہے کہ میں اسے دوبارہ برباد کر دوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ باورچی خانے میں گیا اور اطمینان سے الماری کے برتن اٹھا کر فرش پر پھینک دیے۔ وہاں ایک سیاہ رنگ کا اسپرے پینٹ اس کے ہاتھ آ گیا۔ ’’یہ ہوئی نا بات!‘‘ وہ ہنسا اور پھر سارے گھر کی دیواروں، الماریوں، دروازوں اور ہر چیز پر وہ قدیم نشانات بنا دیے جو اس نے قدیم کتاب میں دیکھے تھے، حتیٰ کہ مائری کے جوتوں کے اندر بھی۔ اس کے بعد اس نے اسپرے صحن میں پھینک دیا اور گھر سے نکل گیا۔
۔۔۔۔
فیونا اور مائری کے اعزاز میں دی گئی پارٹی بہت شان دار رہی۔ تمام مہمانوں نے اس کا خوب لطف لیا۔ بلاشبہ شاہانہ نے بہت محنت کی تھی، انھوں نے کئی قسم کی نہایت لذیذ ڈشیں تیار کی تھیں۔ پارٹی ختم ہوئی تو سب اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ جبران اور اس کے والد بھی مچھلی کے شکار سے واپس پہنچ گئے۔ وہ مچھلی صاف کرنے میں لگے تھے کہ اچانک جبران کی نظر گھڑی پر پڑی تو چونک اٹھا: ’’اوہ بہت دیر ہو گئی۔‘‘
اس نے اپنے والدین کو مخاطب کیا: ’’ممی پاپا، میں انکل اینگس کے ہاں جا رہا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ دوڑتا ہوا گھر سے نکل گیا۔ دانیال باغیچے میں کھڑا تھا، وہ بھی ساتھ ہو لیا اور دونوں اینگس کے ہاں پہنچ گئے۔ فیونا وہاں نہیں تھی۔ اینگس نے جونی سے کہا کہ وہ فیونا کے گھر ذرا ان کی خیریت معلوم کرے۔ یہ سن کر جونی اچھل پڑا: ’’اوہ، میں تو بھول ہی گیا تھا، مجھے احساس ہی نہیں ہوا کہ اتنا وقت گزر گیا ہے۔‘‘ جونی نے کتاب بند کر کے رکھ دی اور چل پڑا۔
(جاری ہے)