نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز (ویب سائٹ) کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
فیونا گھر پہنچ کر جبران اور دانیال کا انتظار کر نے لگی۔ اسے کھڑکی میں بیٹھے انتظار کرتے ہوئے پانچ ہی منٹ ہوئے تھے کہ اس نے دونوں کو سامنے گلی میں آتے دیکھا۔ دونوں اس کے گھر کے دروازے کے سامنے پھولوں والے راستے پر رک گئے۔ فیونا تیزی سے دروازہ کھول کر باہر آئی اور دونوں کو مسرت بھری نظروں کے ساتھ خوش آمدید کہا۔ "آؤ، اندر آؤ… ممی ابھی آتی ہوں گی، وہ آپ دونوں کے لیے کچھ کھانے پینے کا بندوبست کر رہی ہیں۔”
"فیونا، تم سے مل کر بہت خوشی ہوئی، صبح سے اتنی بارش ہو رہی تھی، مجھے ڈر تھا کہ شاید آج ملاقات نہیں ہو سکے گی، لیکن اچھا ہوا بارش رک گئی۔” جبران نے صوفے پر بیٹھنے کے بعد اونی کوٹ کے بٹن کھولتے ہوئے کہا۔
"مجھے بھی تم دونوں سے مل کر خوشی ہوئی ہے، دراصل یہ اتنا چھوٹا سا گاؤں ہے اور یہاں اتنے کم لوگ ہیں کہ میرا کوئی خاص دوست ہی نہیں بن سکا ہے ابھی تک۔” فیونا نے کھڑکی سے پردہ ہٹاتے ہوئے کہا۔ شیشے کے پار ان کے باغیچے میں کھلے پھول لہراتے نظر آنے لگے۔
پہلی قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
دوسری قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
تیسری قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا
"تو ہم ایک دوسرے کے اچھے دوست بن جاتے ہیں۔” جبران نے فوراً دوستی کی پیش کش کر دی۔” آن لائن دوست تو ہم پہلے ہی سے ہیں۔”
فیونا نے مسکراکر کہا ” ہاں، میں تمھارے ساتھ دوستی کر سکتی ہوں، تم ایک اچھے لڑکے ہو۔”
"شکریہ!” جبران شرما گیا، پھر سنبھل کر بولا "یہ میرا کزن ہے دانیال۔ بدقسمتی سے اسے انگریزی نہیں آتی لیکن میں آپ دونوں کے درمیان ترجمان بن سکتا ہوں۔”
"ٹھیک ہے۔” فیونا نے سر ہلایا۔ "میں اپنے نئے دوست سے یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ اسے اسکاٹ لینڈ آ کر کیسا لگا؟”
جبران نے فیونا کا سوال اردو میں دانیال کو سنایا تو اس نے بڑے اعتماد سے جواب دیا "مجھے یہاں آ کر بہت اچھا لگا ہے، یہاں کے سرخ اینٹوں والے تقریباً ایک جیسے گھر، صاف ستھری گلیاں، اور ٹھنڈا موسم، سب بہت اچھا لگا۔”
جبران نے اسے انگریزی میں منتقل کیا تو فیونا ایک دم سے بولی "ابھی تو تم نے یہاں کا دریا اور جھیلیں نہیں دیکھیں، وہ دیکھو گے تو اور اچھا لگے گا۔”
"میں ضرور دیکھنا چاہوں گا۔ ” دانیال مسکرا دیا۔ اسی وقت دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور فیونا کی ممی ہاتھوں میں تھیلیاں پکڑے دروازے کے سامنے سے گزریں۔ وہ ذرا ٹھہریں اور بولیں "میں ابھی آئی۔” انھوں نے کھانے کا سامان باورچی خانے میں رکھا اور ڈرائنگ روم میں آ گئیں۔ "خوش آمدید بچّو، کیسے ہیں آپ دونوں؟”
"جی، ہم ٹھیک ہیں، شکریہ، خدا آپ کو ہمیشہ خوش رکھے۔” جبران نے جواب دیا۔ مائری کی آنکھوں میں ایک دم سے چمک آ گئی۔ ” لگتا ہے آپ کی ماں آپ کا بہت خیال رکھتی ہیں۔”
"نہ صرف ماں بلکہ پاپا بھی۔” جبران نے جلدی سے کہا "وہ دونوں مجھے ڈھیر سارا وقت دیتے ہیں اور ہر معاملے میں میری مدد کرتے ہیں۔”
"اچھا تم لوگ باتیں کرو، میں کچھ اسنیکس لاتی ہوں۔” یہ کہہ کر فیونا کی ممی اٹھ کر چلی گئیں اور تھوڑی دیر بعد جب وہ ایک بھرا ٹرے لے کر دوبارہ آئیں تو انھوں نے جبران سے پوچھا "آپ کے پاپا کہاں کام کرتے ہیں؟”
جبران نے ٹرے سے اسنیکس اٹھاتے ہوئے کہا "وہ الباکاٹے فرم میں جنرل منیجر ہیں۔” فیونا کی ممی یہ سن کر چونک اٹھیں۔”کیا آپ بلال احمد کے بیٹے ہیں؟”
"جی جی۔” اس بار حیران ہونے کی باری جبران کی تھی، فیونا کو بھی خوش گوار حیرت نے آ لیا۔ وہ سوچنے لگی کہ اس کی ممی جبران کے والد کو پہلے سے جانتی ہیں اور اسے پتا ہی نہیں ہے۔ جبران نے پوچھا "کیا آپ انھیں جانتی ہیں؟”
مائری مسکرا دیں "ہاں، کیوں کہ ہم ایک ہی آفس میں کام کرتے ہیں، اور میں یہ بھی جانتی ہوں کہ وہ یہاں کے دریا اور جھیلوں میں بڑے شوق سے مچھلی کا شکار کرتے ہیں۔”
"ممی، یہ کتنا خوب صورت اتفاق ہے، پھر تو آپ اپنے آفس کے ساتھی کو فون کر کے کہیں کہ جبران اور دانیال یہاں ہیں، کیوں کہ ہم دیر تک گھومیں پھریں گے۔” فیونا نے چہک کر کہا۔
مائری نے مسکرا کر سر ہلایا اور اٹھ کر ڈرائنگ روم سے نکل گئیں۔ ان کے جاتے ہی تینوں اسنیکس کھاتے ہوئے گپ شپ کرنے لگے۔ اچانک فیونا بولی "تمھارے پاپا مچھلی کا شکار کرتے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ ان کے پاس چھوٹی کشتی بھی ہوگی۔”
"ہاں، ہے تو؟”جبران کے چہرے پر سوالیہ تاثر ابھرا۔
"ہم اس کشتی کو لے کر قلعۂ آذر پر چلے جاتے ہیں، بڑا مزا آئے گا۔ تم تو جانتے ہی ہو کہ قلعہ آذر ایک تاریخی مقام ہے، دانیال کو یہ جگہ ضرور دیکھنی چاہیے، اس کی زندگی کا یادگار تجربہ ہوگا۔ ” فیونا روانی اور جوش سے بولتی رہی، جب کہ جبران اس کے چہرے کو حیرت سے تکتا رہا۔ "کیا تم کبھی وہاں گئی ہو فیونا؟” جبران نے پوچھ لیا۔
"نہیں۔” فیونا جلدی سے بولی۔ "میری ممی کہتی ہے کہ ہمارے آبا و اجداد وہاں رہتے تھے۔”
جبران نے سر کھجاتے ہوئے کہا "میں نے قلعۂ آذر کے متعلق بہت کچھ پڑھا اور سنا ہے، لیکن کبھی یہ نہیں سنا کہ اس قلعے میں کبھی مک ایلسٹر خاندان بھی رہا ہے۔” فیونا جلدی سے بولی "مک ایلسٹر نہیں، بلکہ میری ممی کی طرف کے آبا و اجداد میں سے کوئی وہاں رہتا تھا، یعنی فرگوسن خاندان سے۔”
اس موقع پر دانیال، جو پہاڑی علاقے میں رہائش کے باعث بادلوں کے تیور دور سے پہچان لیتا تھا، مداخلت کر کے بولا "بھئی اگر تم لوگوں کو کہیں جانا ہے تو فیصلہ کرنے میں زیادہ دیر مت لگائیں، کیوں کہ آسمان مکمل طور پر صاف نہیں ہے، اور مجھے خدشہ ہے کہ بارش ایک بار پھر شروع ہو جائے گی۔”
جبران نے ترجمانی کی تو فیونا نے کہا ٹھیک ہے، چلتے ہیں، میں ممی کے لیے وہاں سے پھول بھی توڑ کر لے آؤں گی۔”
وہ تینوں صدیوں پرانے قلعے کی سیر کرنا چاہتے تھے، اور تینوں میں ایک بات مشترک تھی، یہ کہ انھیں نئی نئی جگہوں کی تلاش اور مہم جوئی میں بہت دل چسپی تھی، فرق یہ تھا کہ دانیال کو اپنا یہ شوق آس پاس کے پہاڑوں میں گھوم پھر کر پورا کرنا پڑتا تھا۔ جبران نے جب فیونا سے پوچھا کہ کیا تم اپنی ممی سے پوچھو گی؟ تو اس کے چہرے پر شرارت بھری مسکان ابھری، اس نے کہا "ممی نے مجھے وہاں جانے سے منع کر رکھا ہے۔”
وہ تینوں گھر سے نکلے اور جھیل کی طرف بڑھنے لگے۔ تینوں صنوبر اور شیشم کے جھنڈ میں راستہ بناتے ہوئے جا رہے تھے؛ جبران دانیال کو بتانے لگا کہ اسکاٹ لینڈ میں جھیل کو لوچ کہتے ہیں۔ درختوں اور رنگ رنگ کے پھولوں کے درمیان جھیل کا پانی نظر آرہا تھا، اور یہ منظر ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی آرٹسٹ نے ایک فن پارہ تخلیق کیا ہو۔ بہار کا موسم عروج پر تھا۔ جھیل کے کنارے پہنچ کر وہ رک گئے۔ کنارے پر فاصلے فاصلے سے چھوٹی کشتیاں کھڑی نظر آ رہی تھیں۔ جھیل میں کوئی کشتی اس وقت کھیتی ہوئی نظر نہیں آ رہی تھی، جبران ایک کشتی کے پاس کھڑا ہو گیا تو فیونا بولی۔ "تو یہ ہے تمھارے پاپا کی کشتی!”
اس نے جھیل کے پانی پر نظر دوڑائی اور پھر تشویش بھرے لہجے میں بولی "پانی میں لہریں اٹھ رہی ہیں، ہم محفوظ تو ہوں گے نا؟”
"ارے گھبراؤ نہیں۔” جبران بولا "میرے پاپا نے مجھے کشتی کھینا سکھایا ہے، اور قلعہ آذر ویسے بھی زیادہ دوری پر نہیں ہے۔ مسٹر لیمنٹ نے پاپا سے گفتگو کے دوران ذکر کیا تھا کہ قلعے کے پاس جزیرے پر ہزاروں تیتر ہوتے ہیں، ہو سکتا ہے ہم بھی چند تیتر پکڑ سکیں، پھر تو ڈنر میں مزا آ جائے گا۔”
یہ کہہ کر وہ کشتی میں سوار ہوا اور چپو سنبھال لیے۔ فیونا اور دانیال بھی دوسرے سرے پر بیٹھ گئے۔ دونوں نے ایک ایک چپو سنبھال لیا اور پھر کشتی آہستہ آہستہ جھیل کے اتھلے پانی میں آگے بڑھنے لگی۔ فیونا پہلی مرتبہ کشتی میں سفر کر رہی تھی، وہ پانی میں دیکھ کر بولی "یہ تو تقریباً کالا ہے، میرا خیال ہے کہ یہ لوچ نِس سے بھی زیادہ گہری جھیل ہے۔”
ہوا کے ایک تیز جھونکے نے اس کے لمبے بالوں کو اڑا کر اس کی آنکھوں پر دے مارا۔ وہ ایک ہاتھ سے بال ہٹا کر بولی "دیکھو جبران، پانی میں کتنا اچھال آنے لگا ہے، میں نے سنا ہے کہ لوچ نِس کی طرح اس جھیل ڈون میں بھی عفریت ہے۔” اگرچہ یہ اس کا اپنا منصوبہ تھا کہ قلعۂ آذر کی سیر کی جائے لیکن اب وہ جھیل میں سفر کرتے ہوئے گھبرا رہی تھی۔ "بے وقوفی کی باتیں مت کرو فیونا۔” جبران بولا۔ "بس اب ہم پہنچنے ہی والے ہیں، عفریت جیسی کوئی چیز نہیں، اگر تمھیں پھر بھی ڈر لگ رہا ہے تو اپنی آنکھیں بند کر لو۔ اب تم گیارہ سال کی ہو گئی ہو لہٰذا تمھیں تصوراتی عفریتوں اور لہروں والے پانی سے نہیں گھبرانا چاہیے۔”
"میں خوف زدہ نہیں ہوں۔” فیونا جلدی سے بولی "اگرچہ مجھے عفریتوں پر کوئی یقین نہیں ہے لیکن لہروں والے پانی سے میرا بدن کانپنے لگتا ہے، اور مجھے ایسا بالکل پسند نہیں لیکن کیا کروں؟
اسی لمحے اس کی نگاہیں قلعۂ آذر پر جم گئیں۔ ماحول میں پراسرار خاموشی پھیلی ہوئی تھی، صرف چپوؤں کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ اسے اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سرد سی لہر دوڑتی محسوس ہوئی۔
جاری ہے…….