نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں
ڈریٹن کافی دیر سے ایلسے کے چھوٹے سے سرائے خانے بیڈ اینڈ بریک فاسٹ کے غسل خانے میں گھسا ہوا تھا۔ وہ پینٹ سے لتھڑے ہاتھ دھو رہا تھا اور سارے غسل خانے کو گندا کر رہا تھا، ساتھ ساتھ بڑبڑاتا جا رہا تھا۔
’’مائری کو دیواریں اور ساری چیزیں صارف کرتے ہوئے یقیناً خوب مزا آیا ہوگا، اور اب ایلسے کو بھی آئے گا۔ ویسے بھی لوگ اسے رقم دیتے ہیں تو یہ اسے صاف کرنا ہی ہوگا، ہاں بے چاری کو مجھ سے کچھ نہیں ملے گا۔ امید ہے کہ آج رات کے کھانے کے لیے اس نے کوئی زبردست قسم کی ڈش تیار کی ہوگی۔ اگر کوئی بے مزا چیز پکی ہو گی تو میں اس سرائے خانے کو نیا رنگ دے دوں گا۔‘‘
ہاتھ دھو کر جب وہ نیچے اترا تو ایلسے کو کنٹربری سے آئے ہوئے ایک جوڑے کے ساتھ محو گفتگو پایا۔ ایلسے کی نظر اس پر پڑی تو فوراً بول اٹھی: ’’ہیلو ڈریٹن… میں ذرا ان براؤنز صاحبان کو بتا رہی تھی کہ آج جو میں ٹی پارٹی میں گئی تھی، وہ کیسی رہی۔‘‘ ڈریٹن نے اس کی بات نظر انداز کر کے پوچھا: ’’رات کے کھانے میں کیا ہے؟‘‘
ایلسے نے گردن گھما کر بڑی بڑی آنکھوں سے اسے گھورا اور جواب دینے کی بجائے اپنی بات جاری رکھی: ’’میں براؤنز صاحبان کو یہ بتا رہی تھی کہ شاہانہ نے ایک شان دار پارٹی دی تھی مائری مک ایلسٹر کے اعزاز میں، لیکن کوئی شیطان اس کے گھر میں گھس گیا تھا اور بہت گندگی پھیلائی۔‘‘
ڈریٹن نے چونکنے کے اداکاری کی: ’’اوہ، یہ تو بہت شرم کی بات ہے، میں ضرور مائری کے گھر جاؤں گا۔‘‘
ایلسے نے بات جاری رکھی: ’’میں کیا بتاؤں، شاہانہ نے کتنی خوب صورت پارٹی دی تھی۔ میز پوش اتنے حسین تھے کہ میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے، شاید وہ پاکستان سے لائی ہیں۔ فنگر سینڈوچ، ڈبل روٹیاں، بسکٹ، کیک، چائے اور جانے کیا کچھ تھا، بہت مزا آیا۔‘‘
ڈریٹن دل ہی دل میں تلملا رہا تھا، غصّے کو دباتے ہوئے بولا: ’’اگر آپ کہہ رہی ہیں تو واقعی بہت اچھی پارٹی رہی ہو گی، لیکن رات کے لیے یہاں کھانے میں کیا ہے؟‘‘
ایک بار پھر وہ مطلب کی بات پر آ گیا تھا لیکن ایلسے نے اسے پھر گھورا اور لمبی سانس لے کر کہا: ’’تم بہت اکھڑ مزاج ہو … بہرحال رات کے کھانے میں پودینے کی چٹنی کے ساتھ بھنی ہوئی بھیڑ، آلو کا بھرتا، مٹر اور ڈبل روٹی اور اس کے بعد پنیر کا کیک ہوگا۔ تمھیں تو یہ پسند ہوں گے نا ڈریٹن؟‘‘ کہتے کہتے آخر میں ایلسے نے برا سا منھ بنا لیا۔
ڈریٹن خوش ہو کر بولا: ’’اوہو … زبردست … میرے خیال میں پہلے میں باہر کا ایک چکر ضرور لگا آؤں تاکہ بھوک خوب بڑھ جائے۔‘‘یہ کہہ کر اس نے براؤنز فیملی کی جانب دیکھا اور مصنوعی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر بولا: ’’آپ دونوں سے مل کر خوشی ہوئی۔‘‘ اس کے بعد اس نے برطانوی جوڑے کا جواب سننے کا انتظار بھی گوارا نہیں کیا اور چلا گیا۔ باہر نکلتے ہی اس نے دانت کچکچائے: ’’ہونہہ … احمق انگریز … دیکھ لوں گا رات کو ان سے بھی۔ ابھی پہلے تو مجھے قلعہ آذر جانا ہے تاکہ وہ زیلیا کا عظیم جادوگر، عزت مآب پہلان مجھ پر پھر خفا نہ ہو۔‘‘ ڈریٹن نے قہقہہ لگایا اور قلعہ آذر کی طرف چل پڑا۔ درختوں کے جھنڈ سے ہوتے ہوئے جب وہ جھیل پہنچا تو اسے مخصوص مقام پر کشتی نظر نہیں آئی۔ وہ چونک اٹھا۔ اس نے آس پاس تلاش کیا لیکن کشتی نہیں ملی۔ وہ پریشان ہو کر سوچنے لگا کہ اب قلعے سے کیسے پہنچے۔ پانی اتنا ٹھنڈا تھا کہ اس میں تیر کر جانے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ کچھ دیر بعد اس نے ایک پتھر اٹھایا اور غصے سے جھیل میں پھینک دیا۔ اسی عالم میں وہ حسب عادت بڑبڑانے لگا: ’’پہلان سوچے گا کہ میں کہاں مر گیا ہوں۔ ٹھیک ہے، تو پھر میں اس اینگس کے بچے کی گردن ناپوں گا۔‘‘
وہ غصے سے پھنکارتا ہوا اینگس کے گھر کی جانب چل پڑا۔
(جاری ہے…)