نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی پچھلی اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
اس نے اپنے سراپے پر ایک نگاہ ڈالی تو خود کو صاف ستھرا پا کر خوش ہوا اور کرسٹل کا شکریہ ادا کرنے لگا۔ اس نے کرسٹل سے کہا کہ اپنا جادو باقی دونوں پر بھی آزماؤ ورنہ وہ ٹھنڈ کے مارے جم جائیں گے۔ کرسٹل نے مسکراتے ہوئے سر ہلایا اور ہاتھ ایک بار پھر بلند کر کے جھٹکا دیا۔ اگلے لمحے جبران اور فیونا لٹو کی مانند گھومنے لگے، اور جب دونوں رکے تو پوری طرح خشک ہو چکے تھے۔ تینوں کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے، وہ محفوظ بھی تھے اب اور ان کے پاس قیمتی پتھر بھی آ چکا تھا۔ کرسٹل نے آزادی کے لیے فیونا کا شکریہ ادا کیا اور پھر رخصت لے کر گلیشیئر کی بلندی کی طرف چلی گئی۔ جبران نے گہری سانس لی اور کہا: ’’یہ دوسری پری تھی، پہلی والی نے آئس لینڈ میں ہماری مدد کی تھی اور یہ والی، اگرچہ ہمیں قید رکھنا اس کی ذمہ دار تھی لیکن یہاں ہماری مدد کر کے گئی ہے۔‘‘
’’میں تو سوچ رہا ہوں کہ اس بار ہم کسی جزیرے پر نہیں آئے۔ یعنی یہ وائٹ ہارس کوئی جزیرہ نہیں ہے۔‘‘ دانیال نے گھوم پھر کر چاروں طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ فیونا بولی: ’’لگتا ہے پریوں اور جزیروں کا چولی دامن کا ساتھ ہے لیکن یہ بے چاری پری کتنی دور آ کر پھنس گئی تھی۔ ویسے اگر چند اور پریاں ہماری مہم میں ہم سے ملیں تو کچھ برا تو نہیں۔‘‘ اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر زمرد کی موجودی کو محسوس کیا: ’’شکر ہے زمرد میری جیب سے گرا نہیں۔ میرے خیال میں اب شَین کو ڈھونڈا جائے، بہت دیر ہو گئی ہے۔‘‘
’’وہ تو ہمارے لیے بہت پریشان ہو رہا ہوگا۔‘‘ دانیال نے کہا۔ تینوں اس طرف چلنے لگے جہاں سے وہ آئے تھے۔ تھوڑی دیر بعد انھوں نے دیکھا کہ شین دور ایک گھاس والی چھوٹی سی پہاڑی پر بیٹھا ہے۔ انھیں دیکھتے ہی وہ اچھل کر کھڑا ہو گیا اور دور ہی سے ہاتھ ہلا کر کچھ کہنے لگا۔ قریب پہنچنے پر ہی انھیں معلوم ہوا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔
’’کہا مر گئے تھے تم لوگ۔ میں نے کتنا تلاش کیا تم تینوں کو اور تمھارا سامان کہاں ہے؟‘‘ اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا تھا اور نتھنے پھڑک رہے تھے۔
’’اگر ہم بتائیں تو آپ کو یقین نہیں آئے گا۔‘ فیونا نے معصوم بن کر جواب دیا: ’’مثلاً یہ کہ نوکیلے دانتوں والے قدیم ٹائیگر نے ہمارا پیچھا کیا تھا اور گلیشیئر کے بڑے بڑے ٹکڑے ہم پر گرے تھے اور ہم موت کے منھ سے بال بال بچے، اور گلیشیئر کے اندر بند جھیل بڑے غلط موقع پر دیوار توڑ کر ہمیں بہا کر لے جانے والی تھی لیکن ہم اس میں بھی بچ گئے۔‘‘
’’یہ تم کیا بکواس کر رہی ہو۔ نوکیلے دانتوں والا ٹائیگر، گلیشیئر کا ٹوٹنا، کیا تم جاگتے میں خواب دیکھنے کی عادی ہو۔ اب تم میرے ساتھ ہی رہو گے سب لیکن تم لوگ بھاگ کر کیوں گئے تھے۔ میں تو کوئی زیادہ دور نہیں گیا تھا، جلد ہی پلٹ آیا اور تم تینوں کو غائب پایا۔ تم نے یقیناً مجھے دھوکا دیا تھا۔‘‘
وہ بولتا ہی جا رہا تھا اور تینوں سر جھکائے خاموش کھڑے تھے۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ اگر مزید کچھ بولیں گے تو شین کا پارہ مزید چڑھے گا لہٰذا خاموش رہے۔ جب اس کا غصہ اتر گیا تو نرمی سے بولا: ’’چلو شکر ہے کہ تم تینوں سلامت ہو، میں تو واپس جا کر ریسکیو ٹیم کو لانے کی سوچ رہا تھا۔‘‘
’’ہم معذرت خواہ ہیں مسٹر شَین!‘‘ فیونا نے بہ مشکل ہنسی ضبط کرتے ہوئے کہا: ’’دراصل ہماری عادت ہے کہ ہم والدین کو بھی اسی طرح اکیلے چھوڑ کر گھومنے نکل جاتے ہیں۔‘‘
تینوں چپ چاپ جیپ میں بیٹھ کر وائٹ ہارس کی طرف چل پڑے۔ شین نے کہا کہ تم نے بیگ کھو دیے ہیں جس کے لیے اضافی رقم دینی ہوگی۔
(جاری ہے…)

Comments