نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
ناول کی پچھلی تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

اگلے دن فیونا کو اسکول سے چھٹی کرنی پڑی کیوں کہ جب وہ جاگی تو دوپہر کے دو بج رہے تھے۔ اس نے ممی کو جگایا، وہ بھی کام پر نہیں جا سکی تھیں۔ اس وقت جمی اور جونی بھی جاگ گئے تھے۔ انھوں نے نہا دھو کر، تازہ دم ہو کر کھانا کھایا اور پھر انکل اینگس کے گھر کی طرف چل پڑے۔ وہاں پہنچ کر مائری نے ان سے کہا کہ اب پہلے وہ اپنے کام کی جگہ پر جائیں گی تاکہ نہ آنے کی وجہ بتا سکیں اور پھر فیونا کے اسکول جا کر کوئی بہانہ کریں گی، اور واپسی پر کھانے کی چیزیں لے کر آئیں گی۔ یہ کہہ کر وہ بغیر کچھ سنے پھر نکل کر چلی گئیں۔
ذرا ہی دیر بعد دروازے کی گھنٹی بجی، انھوں نے دیکھا کہ فیونا کے دوست دانیال اور جبران آ گئے ہیں۔ وہ دونوں فیونا کے پاس بیٹھ کر گزشتہ رات کی کہانی سننا چاہ رہے تھے لیکن فیونا نے کہا کہ ابھی سب سے پہلے انھیں اگلے مقام کے لیے نکلنا ہے، کیوں کہ اگلا قیمتی پتھر ان کا منتظر ہے۔ فیونا نے کہا کہ پتا نہیں وہ کیسی جگہ ہوگی، گرم یا سرد، بہرحال ان ہی کپڑوں میں جانا ہوگا۔ فیونا کو ابھی بھی نیند آ رہی تھی، اس نے کہا امید ہے کہ وہاں اچھی نیند کا موقع ملے گا۔
انکل اینگس نے فیونا کو مزید کچھ رقم دی، اور کہا کہ اپنی جادوئی طاقتوں کا استعمال بھولنا مت، اس کی ضرورت پڑے گی۔ فیونا نے مسکرا کر کہا، ضرور، بس اب ہم جاتے ہیں اور چند منٹوں میں واپس آ جائیں گے۔
وہ تینوں کھڑے ہو گئے اور ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیا۔ فیونا منتر پڑھنے لگی۔ کمرہ ان کے گرد تیزی سے گھومنے لگا، اور بہت سارے رنگ ان کی آنکھوں کے سامنے رقص کرنے لگے۔ جب وہ رک گئے تو انھوں نے خود کو ریت ایک ٹیلے پر کھڑے پایا۔ پاس کھڑے ایک اونٹ نے جھک کر فیونا کا ہاتھ چاٹا، فیونا ایک دم بدک کر پیچھے ہٹ گئی۔ اس کے منھ سے بے ساختہ نکلا: ’’شاید میں جانتی ہوں کہ ہم کہاں آ گئے ہیں ….. اردن ہے یہ!‘‘
جبران نے چاروں طرف گھوم کر دیکھا، ہر طرف ریتے کے ٹیلوں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیا، سورج سر پر کھڑا آگ برسا رہا تھا۔ وہ بڑبڑا کر بولا کیا ہم واقعی اردن میں ہیں؟ ہم منگولیا میں بھی تو ہو سکتے ہیں لیکن وہاں اتنی گرمی نہیں ہونی چاہیے۔ ایسے میں دانیال نے ان کی توجہ لمبے سفید لباس میں ملبوس ایک آدمی کی طرف مبذول کرائی جو ایک چٹان سے ٹیک لگا کر سو رہا تھا۔ اس کے سر پر سرخ اور سفید چیک والا اسکارف کوفیہ بندھا ہوا تھا۔
فیونا نے ان سے کہا ’’یہ اونٹ ضرور اس شخص کے ہیں، اگرچہ قیمتی پتھر یہاں سے زیادہ دور نہیں ہے لیکن مجھے اس مقام کے متعلق زیادہ درست اندازہ نہیں ہو پا رہا ہے، یہاں سرخ ریت اور سرخ چٹانیں ہی دکھائی دے رہی ہیں، اور گرمی بہت زیادہ ہے، سورج بھی غروب ہونے والا ہے، ہمیں اونٹ لے کر کوئی گاؤں یا قصبہ تلاش کرنا ہوگا۔‘‘
انھوں نے دیکھا کہ اونٹ ریت پر بیٹھ گئے تھے جب کہ ان کا مالک بے سدھ سو رہا تھا، ایک چاقو اس کے کمر سے بندھی رسی میں اڑسا ہوا تھا۔ فیونا نے کوئی آواز کیے بغیر ایک اونٹ کے پاس جا کر اس کی رسی پکڑ لی اور اسے کھینچ کر اونٹ کو اٹھانے کی کوشش کی۔ رسی اتنی گرم تھی کہ فیونا کا ہاتھ جل گیا اور رسی اس کے ہاتھ سے پھسل گئی۔ اونٹ سر ہلایا اور اٹھنے کا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا۔ فیونا نے ایک اور اونٹ کے پاس جا کر اس کے کان میں کہا، اٹھو اونٹ ہمیں تمھاری ضرورت ہے۔ لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ دانیال نے سرگوشی کی ’’کہیں وہ بدو جاگ نہ جائے، دیکھو اس کے پاس ہتھیار بھی ہے۔‘‘
فیونا کا ہاتھ جل گیا تھا اور اونٹ اٹھ نہیں رہے تھے، اسے غصہ آ گیا اور ان دونوں سے مدد کے لیے کہا۔ جبران نے مسکرا کر کہا ’’فیونا تم ہمیشہ اپنا جادو بھول جاتی ہو، تم جانوروں سے باتیں کر سکتی ہو، تو اونٹ سے ان کی زبان میں بات کرو۔‘‘
فیونا مسکرائی اور اپنا جادو استعمال کرنے لگی، فیونا نے ایک اونٹ سے کہا ’’تم کتنے پیارے جانور ہو، کیا تم اپنے دانت اچھے سے برش نہیں کر سکتے، خیر ہمیں قریبی شہر تک جانے کے لیے سواری کی ضرورت ہے، اگر تم میں سے کوئی ہمیں لے جائے گا تو ہم تمھیں واپس لانے کا وعدہ کرتے ہیں، اور ہم تمھیں چوری کرنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں۔‘‘
ایک اونٹ بولنے لگا ’’میرا نام سلوم ہے، میں تم لوگوں کو سواری دوں گا، لیکن شرط یہ ہے کہ تم مجھے کچھ کھجور کھلاؤ۔‘‘ فیونا حیران ہو گئی اور بولی کہ اسے معلوم نہیں تھا کہ اونٹ کھجور بھی کھاتے ہیں۔ اونٹ نے کہا کہ وہ کچھ بھی کھا لیتے ہیں۔ فیونا نے اس کے ساتھ سودا کر لیا۔ وہ تینوں اس پر بیٹھنے لگے تو اونٹ نے فیونا سے کہا ’’پیٹھ پر پڑا کمبل خراب مت کرنا، مجھے اس سے بہت لگاؤ ہو گیا ہے، یہ میرے آقا احمد نے پچھلے سال پنی بیویوں میں سے ایک سے میرے لیے بنوایا تھا اور مجھے لگتا ہے کہ یہ بہت خوب صورت ہے۔‘‘
وہ تینوں بڑی مشکل سے اونٹ پر بیٹھے اور خود کو سنبھالا۔ اونٹ نے انھیں بتایا کہ وہ انھیں اردن کے قدیم شہر مادبا لے کر جا رہا ہے، کیوں کہ وہی ایک قریب ترین شہر ہے۔ اونٹ نے فیونا سے یہ بھی کہا کہ تین بچے اس وقت صحرا میں کیا کر رہے ہیں، کیوں کہ ان کا یہاں ہونا بہت خطرناک ہے۔ فیونا نے اسے بتایا کہ وہ جواہر کی تلاش میں ہیں۔ اونٹ نے حیران ہو کر کہا کہ یہاں جواہرات نہیں ہیں، ہاں صحرائی ہیروں کی بات الگ ہے۔ صحرائی ہیروں کی بات سن کر وہ تینوں پرجوش ہو گئے لیکن اونٹ نے بتایا کہ زیادہ خوش نہ ہوں، وہ قیمتی تو ہیں لیکن اصلی ہیرے نہیں بلکہ اعلیٰ درجے کے بلور کے ٹکڑے ہیں، اور اصلی ہیرے کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ وہ چلتے ہوئے دائیں بائیں بلور تلاش کرتے ہوئے جا رہے تھے لیکن ایک گھنٹا ہو گیا اور اونٹ چلتا ہی رہا۔ وہ اونٹ کے سفر سے بہت تھک گئے تھے کیوں کہ گرمی بھی بہت تھی۔ دانیال نے کہا کیا کہیں رک کر آرام نہیں کیا جا سکتا۔ فیونا نے کہا اچھا خیال ہے، یہاں تو شام ہونے کے بعد بھی سورج چمک رہا ہے۔ اس نے اونٹ سے کہیں رکنے کے لیے کہا تو اونٹ ایک جگہ رک کر بیٹھ گیا۔
وہ تینوں دوڑتے ہوئے ایک پتھر کے سائے میں پہنچ گئے، تینوں پسینے پسینے ہو رہے تھے۔ جبران نے کہا ’’ہم شاید کسی بڑے صحرا میں ہیں، ابھی تک کسی شہر کا کوئی نام و نشان بھی دکھائی نہیں دیا۔‘‘ فیونا نے کہا کہ قیمتی پتھر یہیں اسی علاقے میں کہیں ہے۔ وہ چٹان کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔ وہ دونوں بھی پاس ہی بیٹھ گئے۔
(جاری ہے)

Comments