نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں
وہ بھاگے چلے جا رہے تھے، ان کے سروں پر بڑے بڑے چمگادڑ اڑ رہے تھے لیکن انھیں اس سے بھی بڑے خطرے کا سامنا تھا اس لیے وہ ان سے نہیں ڈرے۔ جب بڑا خطرہ سامنے ہو تو چھوٹے خطرے کا ڈر ختم ہو جاتا ہے۔ جبران گھبرا کر بولا: ’’قذاق بہت قریب پہنچ گئے ہیں، مجھے ان کی بو آ رہی ہے۔‘‘
انھوں نے سنا، ایک قذاق اپنی بے سری آواز میں گا رہا تھا …. یو ہو ہو اور اک بوتل ۔۔۔ !
دانیال یہ سن کر قہقہ لگا کر بولا: ’’ارے یہ تو واقعی انتہائی بے وقوف ہیں،ان کی سوچ بس بوتل اور تختے تک محدود ہے، کیا ان میں کوئی ایک بھی عقل مند نہیں ہے۔‘‘
اچانک ان کی سماعتوں سے ایک چیختی ہوئی آواز ٹکرائی اور ان کے قدم بے ساختہ جہاں تھے وہیں جم گئے۔ وہ آواز کہہ رہی تھی: ’’بدمعاشو… ہے نا ایک عقل مند پائریٹ اور وہ میں ہوں۔‘‘ انھوں نے دیکھا کہ عین ان کے سامنے جھاڑیوں سے ایک انتہائی بدوضع اور خوف ناک شکل والا قذاق کود کر ان کا راستہ روک کر کھڑا ہو گیا۔ وہ اپنی شکل مزید بگاڑ کر بولا: ’’حیران ہو گئے نا کہ میرے پاس بھی دماغ ہے ۔۔۔۔ ارغ ۔۔۔‘‘
اس کے چہرے پر بڑے بڑے بال تھے، اور سر کے گہرے بھورے رنگ کے چپڑے بال رنگین رومال سے باہر نکلے دکھائی دے رہے تھے۔وہ حیرت اور خوف سے قذاق کو دیکھ رہے تھے کہ اسی اثنا میں باقی سمندری ڈاکو بھی پہنچ گئے اور سب نے دائرہ بنا کر انھیں گھیرے میں لے لیا۔ ایک بولا: ’’سردار، ان بدمعاشوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے؟‘‘
بدوضع اور بد نما قذاق مسکرایا۔ انھوں نے دیکھا کہ اس کے منھ میں سامنے کے تین دانت غائب تھے، اور ایک خلا نظر آ رہا تھا۔ اس کے باقی دانتوں پر کوئی بدبودار اور غلیظ مادہ چپکا ہوا تھا جس کی بو دس فٹ دور کھڑے ان تینوں تک پہنچ رہی تھی۔ اس نے چیخ کر کہا: ’’ارے بونی جان، تم نے بڑا اچھا سوال کیا ہے، چوں کہ ہمارے پاس بحری جہاز نہیں ہے اس لیے ہم انھیں تختے پر نہیں لے کر جا سکتے۔‘‘
ان میں سے ایک پائریٹ جس کا نام بگ ٹومی تھا، نے تجویز پیش کی کہ انھیں کسی اونچے درخت سے لٹکا کر پھانسی دی جائے، کوے اور چوہے ان کے جسم مزے سے کھا جائیں گے۔‘‘
اچانک فیونا چلا کر بولی: ’’نہیں… تم سب ہم سے دور رہو۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے جیب سے موتی نکال لیا اور بولی: ’’یہ ایک جادوئی بال ہے، اگر میں تم لوگوں کے سامنے کردوں تو تم سب بندر بن جاؤ گے۔‘‘
تمام قذاق یہ سن کر ہنسنے لگے۔ ان کا سردار کیپن وِل منھ بگاڑ کر بولا: ’’اووو… ارے تم نے مجھے ڈرا دیا۔‘‘
فیونا نے اپنے حواس قابو میں رکھتے ہوئے تھوک نگلا اور بولی: ’’تو ٹھیک ہے، اگر تم اتنے بہادر ہو تو آگے بڑھو اور اسے حاصل کر لو۔‘‘ کہتے کہتے فیونا ٹھہری اور چند لمحے بعد بولی: ’’ڈر گئے نا!‘‘
کیپن ول کی ہنسی ایک دم رک گئی۔ اس کے سر پر بندھا رومال ڈھیلا ہو کر اس کی آنکھ پر آیا۔ آنکھ پر بندھی پٹی گر گئی اور اس کی دوسری آنکھ بھی نظر آ گئی۔ جبران یہ دیکھ کر حیرت سے بولا: ’’ارے، اس کی دوسری آنکھ تو سلامت ہے، اس نے بلاوجہ چھپائی ہوئی تھی.‘‘
کیپن ول نے جلدی سے پٹی آنکھ پر دوبارہ چڑھائی اور سر پر رومال کس کر باندھا اور پھرتی سے خنجر نکال کر غرایا: ’’میرے خیال میں تمھاری زبان کاٹنی ہی پڑے گی، بہت بولتے ہو تم۔‘‘
(جاری ہے)

Comments