رکن سندھ اسمبلی کا کہنا ہے کہ اگروہ معافی قبول نہ کرتیں تو آئندہ سندھ کا کوئی بھائی اپنی بہن کے سرپر چادر نہیں رکھ پاتا‘ امید ہے آئندہ ایوان میں اس قسم کا کوئی واقعہ پیش نہیں آئےگا۔
سندھ کے ایوان میں ان کی شعلہ بیانیوں خاصی شہرت کی حامل ہیں، گزشتہ دنوں پیپلز پارٹی کے رکن سندھ اسمبلی کے ساتھ ہونے والی تلخ کلامی میڈیا میں خبروں کی زینت بنی رہیں اور مذکورہ بالا بات انہوں نے اے آروائی نیوز کو دیے خصوصی انٹرویو میں کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک میرے اسٹینڈ لینے سے سندھ اسمبلی کی دیگرخواتین مستقبل میں ہراساں کیے جانے سے محفوظ ہوگئی ہیں اور اگر آئندہ ایسا کوئی واقعہ پیش آیا تو ایوان میں اوربھی نصرت عباسی موجود ہیں۔
نصرت سحر عباسی کا تعلق خیر پور سے ہے، وہ مسلم لیگ فنکشنل کی اہم رکن ہونے کے ساتھ سندھ اسمبلی کی رکن بھی ہیں، علاوہ ازیں وہ سندھ اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے تعلیم، صعنت، کامرس، مائنز ، منرل ، قانون، امور دستور ساز اسمبلی ، ہیومن رائٹس، پبلک ہیلتھ ، انجیئرنگ اور فنانس کی اہم ممبر بھی ہیں۔
اے آروائی نیوز: کیا امداد پتافی کی سوچ سندھ کے حکمران طبقے کی عکاس ہے ؟
نصرت سحر عباسی: بالکل اس میںتو کوئی دو رائے ہی نہیں ہے، انہوں نے یہ سوچا تھا کہ یہ خاتون ہیں‘ یہ کیا کرلیں گی۔ لیکن ان کی سوچ کو شکست ہوئی، میںسمجھتی ہوں 23 جنوری کا واقعہ سندھ اسمبلی کے تاریخی واقعات میںشمارہوگا ہے ، میرا یہ قدم اسمبلی میں موجوددیگرخواتین کو محفوظ کرگیا ہے۔
اے آروائی نیوز: آپ کے خیال میں خاتون ہونے کے ناطے حالیہ واقعے پرشہلا رضا کو کیا ایکشن لینا چاہیئے تھا؟
نصرت سحر عباسی: بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ شہلا رضا اپنی جماعت کے ساتھ نرم رویہ برتتی ہیں جبکہ جس عہدے پروہ فائز ہیں اس کے تحت یہ عمل انہیں زیب نہیں دیتا ہے، جس روز صو بائی وزیرامداد پتافی نے میرے ساتھ گستاخانہ عمل کیا، اس وقت نہ صرف پیپلزپارٹی کے اراکین ہنس رہے تھے بلکہ شہلا رضا بھی ہنس رہی تھیں۔ میری شدید دل آ زاری ہوئی۔
شہلا رضا کو ڈپٹی اسپیکرہونے کے ناطے اس صورتحال کا فوری ایکشن لینا چاہیے تھا۔ ایک خاتون ہونے کے ناطے بھی یہ ان کی اخلا قی ذمے داری تھی، ان کو اسی وقت امداد پتافی کو روکنا چا ہیے تھا، مگر ایسا نہیں ہوا۔ ڈپٹی اسپیکرکو سب کو یکساں لے کرچلنا ہوتا ہے لیکن بد قسمتی سے ایسا نہیں ہے.
اے آروائی نیوز: بلاول بھٹو نے اس پر فوری ایکشن لیا مگر آپ پھر بھی ایوان میں پیٹرول کی بوتل ساتھ لے کرگئیں‘ کیا بلا ول بھٹو کے بیان اوران کی مذمت پراعتبار نہیں تھا؟
نصرت سحر عباسی: ایک عورت جب خود سوزی کی بات کرتی ہے تو اس کے پیچھے کوئی بہت بڑی وجہ پوشیدہ ہوتی ہے، میرے حوالے سے جس قسم کی زبان استعمال کی گی وہ قابل اعتراض تھی، جمعے کے اس غیراخلاقی واقعے کے بعد سے میرے پاس کالزکا تانتا بندھ گیا۔ملک میں اوربیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے مجھے کال کرکے اظہار یکجہتی کیا۔ سوشل میڈیا بہت محتر ک ہوگیا، ہرایک کا کہنا تھا کہ معاف نہیں کرنا ہے، مجھ پربہت دباؤ تھا، لہذا میں اسمبلی میں پیٹرول کی بوتل لیکر گی، پھر اسی ایوان میں جہاں میرے لئے نازیبا زبان استعمال کی گی تھی اسی جگہ مجھ سے معافی مانگی گئی‘ مجھے چا دراڑھا ئی گئی اورمجھے بہن کا درجہ دیا گیا۔ میں سمجھتی ہوں کہ اگراس وقت میں معاف نہ کرتی تو یہ میری جا نب سے زیادتی ہوتی، مجھے لگا کہ اگر میں نے معاف نہیں کیا تو شاید پھرکوئی بھائی بہن کوچا درنہیں پیش کرے گا۔
ہاں یہ سچ ہے کہ بلاول بھٹو ، بختا ور بھٹو اورآ صفہ بھٹو نے فوری رد عمل کے ذریعےامداد پتا فی کے اقدام کی مذ مت کی ، جس پر میں ان کی شکر گزار ہوں ، مگر ایو ان میں برا جما ن بااثرشخصیات کی خاموشی کے خلاف مجھے یہ سب کر نا پڑا تھا۔
اے آروائی نیوز: میں نے ایک خاتون رکن اسمبلی سے ایک انٹرویو لیا تھا ان کا کہنا تھا کہ خواتین اراکین اسمبلی کو کسی بل کی منظوری یا پروجیکٹ کے نافذ کے لئے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، ان سے کہا جا تا ہے کہ آپ لوگ ریزروسیٹ پرآئیں ہیں، آپ کو پروجیکٹ پرپیسے خرچ کرنے کی کیا ضرورت‘ آپ کوالیکشن تھوڑی لڑنا ہے ، نصرت صاحبہ کیا آپ کو اس قسم کے جملے سننے کو ملتے ہیں ؟
نصرت سحر عباسی: بالکل ایسا ہے!بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایسا ہی ہے، نہ صرف صوبائی بلکہ قومی اسمبلی اور سینٹ کی خواتین رکن کو بھی اس قسم کے حالات اورجملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ اسمبلیوں میں بزنس سے متعلق تجاویزسب سے زیادہ یہ ریزرو سیٹس والی خواتین ہی لاتی ہیں۔ اس کے باوجود ہمیں فنڈز کی کمی کا سامنا ہوتا ہے ، وجہ یہی ہے کہ جناب آپ تو ریزرو سیٹ کی ہیں ، آپ نے علاقے میں کام کرواکرکیا کرنا ہے، آپ نے الیکشن تھوڑی لڑنا ہے جو آپ علاقے میں کام کے لئے فنڈز کی طلب گار ہیں۔
آپ یقین کریں میرے لوگ روزانہ مجھ سے اپنے مسائل بیان کرتے ہیں، انہیں بینادی مسائل کے حل کے لئے میرا تعاون درکار ہے، تاہم فنڈزنہ ملنے کی بدولت میںاپنے لوگوں کے کام آنے سے قاصر ہوں ، میں فنڈز کے حصول کی خاطراپنے سارے کاٍغذات جمع کراچکی ہوں مگر کوئی شنوائی نہیں ، سمجھ میں نہیںآتا ہے کہ ایسا کیوں ہے.
اے آروائی نیوز: اگر ایسا ہے تو کیا ہماری قانون ساز اسمبلیاں بھی Men Dominate Society کی تصویر ہیں ؟
نصرت سحر عباسی: دیکھیں، یہ Men dominate Society کی عکاسی نہیں ہے تو اور کیا ہے ، ایک شخص ایک خاتون کے خلاف کیا کیا شرمناک باتیں کرتا رہا اوراس ایوان میںسے کسی نے اُٹھ کراس کو شٹ اپ کا ل نہیں دی، اس کے علاوہ جب بھی کوئی خاتون اپنا موقف بیان کرتی ہے تو کوئی نہ کوئی مرد رکن کوئی نہ کوئی comment ضرور پاس کرتا ہے، آپ یقین کریں یہ سلسلہ معمولات میں شامل ہو گیا ہے، جب بھی کوئی خاتون تقریر کے لئے اُٹھتی ہے، ایک دم آواز آتی ہے کہ ’’چلو جی! خواتین کا رونا شروع ہو گیا‘‘ ، توآپ کا یہ سوال بالکل درست ہے، ہمیں ہرجگہ Men Dominate Society کا سامنا کرنا پڑتا ہے.
اے آروائی نیوز: کیا مستقبل میں ایسا کوئی واقعہ دوبارہ پیش آنے کا امکان ہے؟۔
نصرت سحر عباسی: دیکھیں اس ایشو پرتو اتنا شور اُٹھ گیا ہے، ناصرف پاکستان بلکہ بیرون ملک پاکستانیوں نے اس عمل کی سخت الفاظ میں مذمت کی، جس پر میں تہہ دل سے شکریہ ادا کرتی ہوں ،اس کے علاوہ سوشل میڈیا ، الیکٹرونک میڈیا ، پرنٹ میڈیا اورمختلف ویب سائیٹس نے اس ایشو کو بہت ہائی لائٹ کیا، جس پرصحافی برداری کی شکر گزارہوں، خاص طور پراے آر وائی نیوز کا میں بہت زیادہ شکریہ ادا کرتی ہوں۔
اب میرا نہیں خیال کہ اس قسم کی یا اس سے ملتی جلتی بھی کوئی صورتحال دیکھنے کو ملے گی، اس واقعے کے بعد سے ہی کتنوں کی زبانیں تو کھلنے سے پہلے ہی بند ہوگئی ہیں، اب تو بہن ، بیٹی کہتے کہتے زبان نہیں تھک رہی ہے ، تو میرا خیا ل ہے کہ اب ایسا ممکن نہیں ہے، کیونکہ ہمارے ایوانیوں میںاوربھی نصرت سحرعباسی موجود ہیں، اوراگر ایسا ہوا تو اب معافی پرجان نہیں چھوٹے گی، اب رکینت خارج ہوگی.
اے آروائی نیوز: سب سے پہلے تھر کی صورتحال سے سندھ کے ایوان کو آپ نے باخبر کیا تھا ، تھر میں تاحال خواتین اور بچوں کی بھوک اور بیماریوں کا سلسلہ جاری ہے ، حکومت کی جانب سے مثبت پیش رفت کیوں سامنے نہیں آرہی ہے، آخر کیا قباحت ہے ؟
نصرت سحر عباسی: تھر کی حالت تاحال ابتر ہے ، وہاں کوئی مثبت پیش رفت نہیںہوئی ہے، ہمارے تھر کے برابرمیں ہی ہندوستان کا صحرائی علاقہ ہے جوکہ ہم سے کہیں زیادہ سہولیات سے مزین ہیں، یہ ہماری حکومت کی کوتاہی ہے، بیماریوں کی وجہ سے معصوم بچوں کا مرجانا ، ماؤں کی گودیاں خالی ہوجانا کوئی معمولی بات نہیں ہے، تھری عوام نے ہاتھ اٹھ اٹھ کر حکومت کو بد دعائیں دی ہیں، یہ بات صوبائی حکومت کے لئے لمحہ فکریہ ہے، انہوں نے بڑے بڑے اعلان کیے کہ جی ہم نے تھر کے عوام کو گندم فراہم کی، اشیا خوردونوش فراہم کی، یقین کریں، ایسا نہیںہے، وہ گندم اوراشیا خوردونوش گوداموں میں خراب ہوگئیں مگرضرورت مندوں تک اس کی رسائی ممکن نہیں ہوئی ، امداد کا سامان تک سڑا دیا گیا ، ضرورت مندوں کو نہیں دیا گیا ، اب سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا، اس قسم کی غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کیوں ہوا؟ یقینا یہ حکومت کی کھلی نا اہلی ہے.
اے آروائی نیوز: مگر حکومت تو تھر کے مستقبل سے بہت پرامید ہے، دعویٰ کیا جارہا ہے کہ تھرکول پروجیکٹ شروع کردیا گیا ہے جس سے نہ صرف تھربلکہ پاکستان کی تقدیربدل جائیگی ، کیا واقعی ایسا ہے ؟
نصرت سحر عباسی: ہاں یہ کام تو ہوریا ہے مگر وہاں مقامی لوگوں سے کام نہیں لیا جارہا ہے. چونکہ یہ پروجیکٹ چین کے اشتراک سے شروع کیا گیا ہے تو چین کی کمپنی نے اپنے ہی لوگوں کو شامل کیا ہے، وہ اپنے لوگوں کو پاکستان لے کرآئے ہیں اورکول پروجیکٹ پرکام کر رہے ہیں جبکہ تھری عوام کواس پروجیکٹ کا حصہ نہیں بنایا جارہا ہے۔
اے آروائی نیوز: پی ایم ایل ف کا 23 جنوری کو اسمبلی سیشن کے دوران رونما ہونے والے معاملے پر کیا موقف ہے ؟ پیر صاحب پگارا کیوں اس معاملے پر سامنے نہیں آئے ؟
نصرت سحر عباسی: میری پارٹی میرے ساتھ ہے‘ پیر صاحب پگارا کو بھی بہت غصہ تھا بلکہ ابھی بھی ہے لیکن میرے منع کرنے پر انہوں نے خاموشی اختیار کرلی ہے۔
پیر صاحب پگارا ان دنوں روحانی دورے پر ہیں مگر جب ان کے علم میں یہ سارا واقعہ آیا تو انہوں نے سخت موقف اپنا تے ہوئے امداد پتافی کے رویہ کی سخت الفاظ میں مذمت کی، یہ ان ہی کی تعلیمات ہیں کہ بدلہ لینے سے بہترہے کہ معاف کردو لہذا میں نے اپنے بزرگ رہنما کی تعلیمات کے مطابق عمل کیا ، جسے انہوں نے سراہا۔