تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

مقبوضہ کشمیر : بھارتی فوج کے ایک اور افسر نے خودکشی کرلی

سری نگر : مقبوضہ کشمیر میں تعینات بھارتی فوجیوں کی جانب سے خودکشی کے واقعات مزید بڑھتے جارہے ہیں، حالات سے تنگ ایک اور فوجی افسر نے خود کو گولی مارکر زندگی کا خاتمہ کرلیا۔

بھارتی میڈیا کے مطابق سری نگر کے مضافاتی علاقہ کھنموہ میں بدھ کو ایک فوجی افسر نے مبینہ طور اپنی ہی سروس رائفل سے گولی مار کر خود کشی کرلی۔ سرکاری ذرائع نے بھی اس خبر کی تصدیق کردی ہے۔

سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ گولی کی آواز سن کر کچھ فوجی جوان ان کی طرف دوڑے تو انہیں خون میں لت پت پڑے دیکھا۔ زخمی افسر کو فوری طور پر قریبی اسپتال منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹروں نے انہیں مردہ قرار دے دیا۔

متوفی فوجی افسر کی شناخت سدیپ بھگت سنگھ کے نام سے ہوئی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ فوجی افسر کی طرف سے یہ انتہائی قدم اٹھانے کی وجوہات ابھی معلوم نہیں ہوسکی ہیں۔

واضح رہے کہ اس سے قبل یکم مارچ کو سری نگر میں ہی تعینات ایک بھارتی فوجی نے بھی خود کو سرکاری رائفل سے گولی مار کر زخمی کرلیا تھا۔

اس حوالے سے جموں و کشمیر کے حالات پر گہری نگاہ رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ سیکورٹی فورسز  اہلکاروں میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کی بہت سی وجوہات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ حکومت نے سیکورٹی اہلکاروں کے لئے یوگا اور دیگر نفسیاتی ورزشوں کو لازمی قرار دیا ہے لیکن باوجود اس کے جموں و کشمیر میں جوانوں کی جانب سے خودکشی کے واقعات گھٹنے کی بجائے بڑھ رہے ہیں۔

مزید پڑھیں : مقبوضہ کشمیر میں ایک اور بھارتی فوجی نے خود کو گولی مارلی

بھارتی سرکاری اعداد وشمار کے مطابق سال2010 سے 2019 تک ملک میں 1113 فوجی اہلکاروں کی خودکشی کے1113 مشتبہ واقعات درج کیے گئے۔ اگرچہ سرکاری اعداد و شمار میں کشمیر میں خودکشی کرنے

والے سیکورٹی اہلکاروں کی تفصیلات الگ سے نہیں دی گئیں تاہم غالب گمان یہ ہے کہ سب سے زیادہ واقعات یہیں درج ہوئے ہیں۔

Comments

- Advertisement -