تازہ ترین

1930: کراچی کے ایک گدھے اور گھوڑے کی کہانی

مسٹر جمشید مہتا کراچی میونسپلٹی کے صدر تھے اور سالہا سال بلا مقابلہ اس عہدے پر منتخب ہوتے رہے۔

1930 کے آس پاس مَیں بندر روڈ سے گزر رہا تھا۔ دیکھا کہ جمشید مہتا پیدل ایک زخمی گدھے کو لے کر اسپتال کی طرف جا رہے ہیں۔ ان کی موٹر، ان کا ڈرائیور پیچھے پیچھے چلاتا آ رہا تھا۔ تماشا دیکھنے کے لیے میں بھی اسپتال کے برآمدے میں جا کھڑا ہوا۔

جمشید نے اپنے سامنے گدھے کی مرہم پٹّی کرائی اور ڈاکٹر سے بار بار کہتے رہے کہ زخم کو آہستہ صاف کرے تاکہ بے زبان کو ایذا نہ پہنچے۔ مرہم پٹی ختم ہوئی تو ڈاکٹر کو ہدایت کی کہ گدھے کو ان کے ذاتی خرچ پر اسپتال میں رکھا جائے، اور دانے گھاس کے لیے کچھ رقم بھی اسپتال میں جمع کرا دی۔

دوسری طرف گدھے کے مالک سے بھی کہا کہ جب تک گدھے کا علاج پورا نہ ہو جائے اور وہ کام کرنے کے قابل نہ ہو جائے، تب تک وہ اپنی مزدوری کا حساب اُن سے لے لیا کرے، اور یہ کہتے ہوے کچھ نوٹ پیشگی ہی اسے دے دیے۔

دوسری بار میں نے ایک اَور سربرآوردہ پارسی جہانگیر پنتھکی کو دیکھا کہ وہ الفنسٹن اسٹریٹ پر ایک کرائے کی وکٹوریا گاڑی کو پولیس کی مدد سے روکے کھڑے ہیں اور کوچوان سے بحث کر رہے ہیں۔

بحث کا موضوع یہ تھا کہ گھوڑا بہت لاغر اور بیمار ہے، اس لیے مناسب ہے کہ گھوڑے کو گاڑی سے الگ کر کے دو چار دن اس کا علاج کرایا جائے اور دانہ گھاس کھلا کر اسے کام کے قابل بنایا جائے۔

کوچوان کہیں باہر سے آیا ہوا تھا۔ اسے کراچی کا دستور معلوم نہ تھا، اس لیے وہ پنتھکی کی بات سمجھ نہ سکا، ان سے تکرار کرتا رہا اور آخر غصّے میں آ کر چابک مار کر گاڑی آگے بڑھانے لگا۔ پنتھکی فرسٹ کلاس مجسٹریٹ بھی تھے۔ انھوں نے پولیس سے کوچوان کو گرفتار کرا کے جیل بھجوایا، گھوڑے کو اسپتال بھیجا اور گاڑی کو دھکیلوا کر صدر پولیس تھانے کے احاطے میں کھڑا کرا دیا۔

یہ دو واقعات بیان کرنے کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ کراچی کے حیوانوں کی بھی عزت اور شان تھی، ان کے بھی قانونی حقوق تھے جن کا احترام کیا جاتا تھا۔


(پیر علی محمد راشدی)

Comments

- Advertisement -