اشتہار

اولیویا ڈی ہیویلینڈ: ہالی وڈ کے سنہری دور کی آخری بڑی اداکارہ

اشتہار

حیرت انگیز

اولیویا ڈی ہیویلینڈ 104 برس زندہ رہیں۔ وہ ہالی وڈ اور امریکی فلموں کی معروف اداکارہ تھیں جنھیں متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔ انھوں نے شہرہ آفاق فلم گون ود دا ونڈ میں کام کیا تھا۔

‘گون ود دا ونڈ’ (Gone with the Wind) 1939ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ یہ ہالی وڈ کے سنہری دور کی یادگار ترین فلموں میں سے ایک ہے۔ اس فلم میں اولیویا ڈی ہیویلینڈ کو ملینی کے کردار نے نمایاں پہچان دی۔ یہ فلم اُس زمانے کے لسانی اور نسلی تعصبات کے پس منظر میں‌ بنائی گئی تھی جس میں امریکہ میں خانہ جنگی اور امریکی معاشرے میں غلامانہ نظام کی عکاسی نے شائقین کی توجہ حاصل کی۔ گون ود دا ونڈ نے 10 آسکر ایوارڈ اپنے نام کیے اور ریکارڈ بزنس کرنے والی فلم بنی۔ اس فلم کی کہانی مارگریٹ مچل کے 1936ء کے ناول سے ماخوذ ہے۔ اس کے ہدایت کار وکٹر فلیمنگ تھے۔

فلم کی کہانی امریکی جنوب کی ریاست جارجیا کی جاگیر کے مالک کی بیٹی اسکارلیٹ اوہارا کے گرد گھومتی ہے۔ اسکارلیٹ کے بارے میں پہلا تأثر یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک کھلنڈری، مغرور، گھمنڈی قسم کی لڑکی ہے اور کئی امیر گھرانوں کے نوجوان اس کی ایک نگاہِ التفات کے منتظر رہتے ہیں لیکن وہ دل ہی دل میں ایشلے نامی ایک جاگیر دار کے بیٹے کو چاہتی ہے۔ اداکارہ اولیویا کو ملینی کے روپ میں فلم کی ہیروئن اسکارلیٹ کی گہری دوست اور رشتے دار دکھایا گیا ہے۔

- Advertisement -

اولیویا 1916ء میں‌ پیدا ہوئی تھیں۔ برطانوی نژاد امریکی اولیویا ڈی ہیویلینڈ نے فلمی دنیا میں 1935ء سے 1988ء تک اپنی پہچان کا سفر جاری رکھا۔ اداکارہ نے 49 فیچر فلموں میں کام کیا اور ان کا شمار اپنے وقت کے معروف اداکاروں میں ہوتا ہے۔ 2020 میں آج ہی کے روز ہیویلینڈ نے دنیا کو الوداع کہا۔ وہ سنیما کے سنہرے دور کی ایسی اداکارہ تھیں جس نے ایک صدی سے زائد عرصہ دنیا میں گزارا۔

اولیویا ڈی ہیویلینڈ کی بہن جین فونٹین بھی اپنے وقت کی مشہور اداکارہ تھیں مگر آپس میں‌ ان کے تعلقات اچھے نہیں‌ تھے اور فلمی دنیا میں ان کے مابین تنازع رہا۔

اداکارہ اولیویا نے 2 اکیڈمی ایوارڈ حاصل کیے جو ‘ٹو ایچ یس اون اور ‘دی ہیئرس جیسی فلموں میں ان کی عمدہ کارکردگی پر دیے گئے تھے۔

اولیویا ڈی ہیویلینڈ ایک ایسے گھرانے کی فرد تھیں‌ جس میں ان کے سرپرست تدریس اور آرٹ کے شعبہ سے وابستہ تھے۔ اولیویا کے والد پروفیسر جب کہ والدہ اسٹیج اداکارہ اور مقامی سطح پر بطور گلوکار بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرتی تھیں۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ اولیویا اور ان کی بہن کو اداکاری والدہ کی طرف سے ورثہ میں ملی تھی۔ ان کے والدین کی ملاقات جاپان میں ہوئی تھی اور انھوں نے شادی کر لی تھی۔ بعد میں اختلافات پیدا ہوئے اور اس جوڑے میں علیحدگی ہوگئی۔ ان کی والدہ نے دوسری شادی کر لی۔ چھوٹی عمر میں اولیویا ڈی ہیویلینڈ نے موسیقی، شاعری اور اداکاری میں دل چسپی لینا شروع کر دیا تھا۔ والدہ ان کی حوصلہ افزائی کرتی تھیں۔ اولیویا نے مقامی موسیقی اور اس کے ساتھ پیانو جیسا ساز بجانا سیکھا۔ ان کی عمر کم تھی لیکن وہ اکثر اپنی ماں کی زبانی شیکسپیئر کے ڈراموں کے مکالمے سنتی تھیں اور یہ سب ذہن نشین کرلیتی تھیں۔ اس طرح انھیں ڈرامہ اور شاعری کا شوق پیدا ہوا۔

1933ء میں نوجوان ہیویلینڈ نے تھیٹر کے لیے اُس مشہورِ زمانہ داستان کا ایک کردار نبھایا جو بچوں اور بڑوں میں یکساں مقبول رہی ہے یعنی ایلس ان ونڈر لینڈ! یہ اس دور کا ایک مقبول کھیل تھا۔ اولیویا ہیویلینڈ اس سے قبل اسکول کی سطح پر متعدد ڈراموں میں پرفارمنس کا مظاہرہ کرچکی تھیں۔ 1935ء میں انھیں کیپٹن بلڈ میں کام کرنے کا موقع ملا جو ایک کام یاب فلم ثابت ہوئی۔ اس فلم کو شائقین نے بے حد سراہا اور ڈی ہیویلینڈ نے فلم بینوں ہی نہیں ناقدین کو بھی اپنی جانب متوجہ کرلیا۔پہلی مرتبہ بطور اداکارہ دی نیویارک ٹائمز اور ورائٹی جیسے مقبول میگزین میں اولیویا کا ذکر کیا گیا۔ یہ فلم چار اکیڈمی ایوارڈز کے لیے نام زد ہوئی۔ اس شان دار کام یابی کے بعد اگلے برس وہ ایڈونچر آف رابن ہڈ جیسی مقبول کہانی کا حصہ بن گئیں اور مزید شہرت سمیٹی، لیکن عجیب بات ہے کہ اس فلم کے بعد ان کا یہ سفر تھم سا گیا۔ اس کے بعد فلموں میں وہ اپنے کرداروں کی بدولت نمایاں نہ ہوسکیں۔

92 سال کی عمر میں انھوں نے امریکی حکومت کی جانب سے نیشنل میڈل آف آرٹس وصول کیا تھا۔ 1953ء میں اداکارہ اولیویا ڈی ہیویلینڈ پیرس منتقل ہوگئی تھیں اور تاعمر وہیں رہیں۔ انھیں دوسری عالمی جنگ سے قبل فلمی دور کی آخری بڑی اداکارہ کہا جاتا ہے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں