حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں پتہ چلا کہ کرونا وائرس کی قسم اومیکرون سے متاثر افراد میں لانگ کووڈ یعنی صحت یابی کے بعد بھی طویل عرصے تک اس کا علامات کا سامنا ہونے کا امکان کم ہوتا ہے۔
بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کرونا وائرس کی قسم اومیکرون پر کی جانے والی اب تک کی ایک مستند اور جامع تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ قسم سے صحت یاب ہونے والے افراد میں لانگ کووڈ سے متاثر ہونے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔
دی لینسٹ میں شائع تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگرچہ اومیکرون سے متاثرہ افراد میں بھی لانگ کووڈ میں متاثر ہونے کے امکانات موجود ہیں مگر اس کی شرح دیگر قسموں سے کم ہے۔
رپورٹ کے مطابق کنگز کالج لندن کے ماہرین کی جانب سے برطانیہ میں اومیکرون کی لہر کے دوران مرض میں مبتلا ہونے والے افراد کے ڈیٹا کا جائزہ لیا اور ان کی صحت یابی کے بعد ان میں طویل عرصے تک رہنے والی علامات کو بھی دیکھا۔
تحقیق کے دوران ماہرین نے اومیکرون سے قبل ڈیلٹا سمیت کرونا کی دیگر قسموں میں مبتلا ہونے کے بعد صحت یاب ہونے والے افراد اور ان میں طویل عرصے تک رہنے والی علامات کو بھی جانچا۔
ڈیٹا سے معلوم ہوا کہ اومیکرون سے صحت یاب ہونے والے صرف 4 فیصد افراد میں صحت یابی کے کئی ماہ بعد کرونا کی علامات موجود رہیں، یعنی وہ لانگ کووڈ کا شکار رہے۔
تاہم اومیکرون کے علاوہ ڈیلٹا یا دوسری قسموں سے صحت یاب ہونے والے 10 فیصد افراد طویل عرصے تک لانگ کووڈ کا شکار رہے۔
ماہرین نے تحقیق کے دوران اومیکرون سمیت دیگر قسموں سے متاثر ہونے والے افراد کے مرض کے دورانیے کو بھی نظر میں رکھا۔
سائنسدانوں نے اپنی تحقیق میں بتایا کہ اگرچہ اومیکرون پر کی جانے والی تحقیق کے نتائج حوصلہ کن ہیں، تاہم اس سے یہ نتیجہ اخذ نہ کیا جائے کہ اس سے لانگ کووڈ نہیں ہوتا۔
یہاں یہ بات یاد رہے کہ کووڈ 19 سے متاثر ہونے والے متعدد افراد کو بیماری سے صحت یاب ہونے کے کئی ہفتوں یا مہینوں بعد بھی مختلف علامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جسے ماہرین نے لانگ کووڈ کا نام دیا ہے۔