اسلام آباد : آل پارٹیز کانفرنس میں مولانافضل الرحمان نے اجتماعی استعفوں اور یوم سیاہ کی تجویز دی ، ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے استعفے دینے کے معاملے پر تحفظات کا اظہار کیا جبکہ اعلامیہ جاری کرنے کیلئے گیارہ رکنی کمیٹی تشکیل دے دی گئی۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں متحدہ اپوزیشن کی جانب سے حکومت کے خلاف آل پارٹیزکانفرنس جاری ہے ، اسلام آبادکے ہوٹل میں مولانافضل الرحمان کانفرنس کی صدارت کر رہے ہیں۔
آل پارٹیزکانفرنس میں پی پی، ن لیگ، اے این پی، قومی وطن پارٹی ، نیشنل پارٹی اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کا وفد شریک ہیں۔
ن لیگ سے شہبازشریف، مریم نواز، شاہد خاقان ، راجہ ظفرالحق اور دیگر، پی پی وفدمیں یوسف رضاگیلانی، شیریں رحمان اوردیگررہنما جبکہ اسفند یارولی،محمود اچکزئی، آفتاب شیر پاؤ، میر حاصل بزنجو، ساجد میر شریک ہیں۔
استعفے دے کرحکومت پر دباؤ بڑھایا جا سکتا ہے، مولانا فضل الرحمان
اے پی سی میں مولانا فضل الرحمان نے اجتماعی استعفوں اوریوم سیاہ کی تجویز دیتے ہوئے کہا استعفےدےکرحکومت پر دباؤ بڑھایا جا سکتا ہے، اپوزیشن اسمبلیوں میں اپنے اراکین کے استعفے جمع کریں۔
آل پارٹیز کانفرنس میں حکومت گرانےکے ساتھ معاشی بحران سےنکلنے پر مشاورت جاری ہے ، مولانا فضل الرحمان بنے کہا معاملات کاواحد حل عمران خان کی طرح سڑکوں پر نکلنا ہے۔
ن لیگ اور پیپلزپارٹی کاحکومت مخالف مؤقف اپنانے پر زور
اے پی سی میں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کاحکومت مخالف مؤقف اپنانے پر زور دیا ، شرکا کا کہنا تھا پیپلزپارٹی اور ن لیگ کا متفقہ موقف ہی متحدہ اپوزیشن کو مضبوط رکھ سکتاہے۔
کانفرنس میں اپوزیشن اتحاد کے لیےنام تجویز کرنے پر بھی غور کیا گیا جبکہ متحدہ اپوزیشن اور سیاسی رابطوں پرمشترکہ کوآرڈینیشن کمیٹی کی تشکیل زیر غور ہے۔
آل پارٹیز کانفرنس میں چیئرمین ، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کوہٹانے کی تجویز
اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس میں چیئرمین ، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کوہٹانے کی تجویز دی گئی ، تجویز اے این پی کے اسفندیار ولی خا ن نےپیش کی۔
اسفندیار نے کہا جس سسٹم کےتحت چیئرمین،ڈپٹی چیئرمین کولائےوہ قبول نہیں ، چیئرمین ، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کوہٹانےپرمشاورت کی جائے۔
اپوزیشن کی آل پارٹیزکانفرنس میں کہا گیا تجاویز کو اعلامیہ کی شکل میں سامنے لایاجائےگا، اعلامیے کیلئے 11رکنی کمیٹی قائم کردی۔
کمیٹی اعلامیےکوحتمی شکل دی جارہی ہے، کمیٹی میں رحمت اللہ کاکڑ،فرحت اللہ بابر، یوسف رضا گیلانی ، احسن اقبال،راناثنااللہ ،شاہد خاقان عباسی ، میاں افتخار حسین،ہاشم بابر ،عثمان خان ،اویس نورنی بھی کمیٹی میں شامل ہیں جبکہ راناشفیق پسروری بھی 11رکنی کمیٹی کا حصہ ہیں۔
اے پی سی میں ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے استعفے دینے کےمعاملے پر تحفظات کا اظہار کیا جبکہ جے یو آئی، اے این پی اور دیگرجماعتوں نے استعفوں کی حمایت کی۔
حکومت کا ہاتھ روکنے کیلئے اسمبلی کے اندر اور باہر کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہیں، شہباز شریف
اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے اے پی سی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تاریخ میں موجودہ بجٹ سے زیادہ بدترین بجٹ نہیں دیکھا، حکومت کا ہاتھ روکنے کیلئے اسمبلی کے اندر اور باہر کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہیں۔
ان کا کہنا تھا دھاندلی کی تحقیقات کیلئےپارلیمانی کمیٹی کےقیام میں پیشرفت نہیں ہوئی، دھاندلی زدہ حکومت عوام کی نمائندگی کر ہی نہیں سکتی، ہمیں عوام کی نمائندگی کرنی چاہیے،بجٹ کو مسترد کرچکے ہیں۔
اپوزیشن لیڈر نے کہا آئی ایم ایف کابنایاہوابجٹ عوام ،کسان اور کاروبار دشمن ہے، سب کو ملکرعوام کو اس معاشی بدحالی کے دلدل سے نجات دلانی ہے۔
اے پی سی کی اندرونی کہانی
آل پارٹیزکانفرنس میں شہباز شریف کاخطاب مولانافضل الرحمان کے بعد شروع ہوا، مولانافضل الرحمان نے کہا دھاندلی سےقائم حکومت کاکوئی جوازنہیں، انتخابات کےبعدہم نےدھاندلی پرآوازاٹھائی تھی، اپوزیشن آج تک اس پرآگےنہیں بڑھ سکی،مولانافضل الرحمان
مہنگا ئی کاطوفان عروج پرہے، اپوزیشن کوایک پلیٹ فارم سےآگےبڑھناہوگا، کچھ بھی ہوجائےتحریک کوآگےبڑھاناہے۔
جےیوآئی نےاپنی تجاویز اے پی سی میں پیش کردیں، جس میں کہا گیا حکومت کاخاتمہ ناگزیرہے، حکومت کےخلاف اپوزیشن کی تمام جماعتیں متحدہوں، حکومت کےخلاف اپوزیشن نےملین مارچ کیے، اپوزیشن بھی شامل ہواور سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔
جےیوآئی کی طرف سےاسلام آبادکےلاک ڈاؤن کی تجویز دی ، جس پر پیپلز پارٹی،ن لیگ اور دیگرسیاسی جماعتوں نے تحفظات کا اظہار کیا۔
شہبازشریف کا کہنا تھا موجودہ حکومت نےمہنگائی کی حدکردی، عوامی مسائل بڑھنےلگےہیں، حکومت پردباؤبنانے کےحق میں ہیں، اپوزیشن کی مشترکہ آوازآگےبڑھنی چاہیے، اے پی سی جو فیصلہ کرےگی قبول کریں گے،شہ
جماعت اسلامی اے ، ایم کیو ایم پاکستان اور بی این پی مینگل پی سی کا حصہ نہیں ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ اے پی سی کے اختتام پر باہمی مشاورت سےاعلامیہ جاری کیاجائےگا۔
خیال رہے دو دن قبل اپوزیشن جماعتوں ن لیگ، پیپلز پارٹی اور اے این پی نے مولانا فضل الرحمان کو اے پی سی کی تاریخ تبدیل کرنے کا مشورہ دے دیا تھا، تاہم انھوں نے اے پی سی کی تاریخ تبدیل کرنے سے انکار کیا، مولانا نے کہا کہ اراکین کو دعوت نامے ارسال کر دیے گئے ہیں اس لیے اب یہ ممکن نہیں۔