دنیا کے ہر باصلاحیت فن کار اور تخلیقی کام کرنے والے کو عالمی سطح شہرت یا ملک گیر پہچان نہیں مل پاتی بلکہ کئی دہائیوں کی ریاضت کے بعد بھی انھیں صرف اپنے شعبے کی ایک نمایاں شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس کی کئی وجوہ ہوسکتی ہیں، لیکن بہت سے فن کاروں کے درمیان جب کوئی تخلیق کار اپنا عمدہ یا اوسط اور معمولی درجے کا کام نہایت مہارت سے انجام دے کر دوسروں کے سامنے منفرد انداز سے پیش کرے تو اپنے ہم عصروں میں ممتاز بھی ہوتا ہے اور دنیا بھر میں پہچان بھی پاتا ہے۔ جارج اورسن ویلز ایسا ہی ایک فن کار ہے۔
بیسویں صدی میں جارج اورسن ویلز (George Orson Welles) نے گمنامی کو پیچھے دھکیل کر بے مثال شہرت سمیٹی۔ اس وقت وہ صرف 23 برس کا تھا۔ جارج اورسن ویلز کو دنیا بیسویں صدی کا بااثر فلم ساز مانتی ہے۔
مئی، 1915ء میں امریکا کی ریاست وسکونسن کے ایک شہر میں پیدا ہونے والے جارج اورسن ویلز کو عام طور پر اورسن ویلز کے نام سے شناخت کیا جاتا ہے جو زندگی کی ستّر بہاریں دیکھنے کے بعد 10 اکتوبر 1985ء کو اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔
فن اور آرٹ کی دنیا سے اورسن ویلز نے کیسے ناتا جوڑا، یہ بھی ایک دل چسپ کہانی ہے۔ اس نے ایک جھوٹ کا سہارا لے کر اداکاری کے لیے آڈیشن دیا اور ایک اسٹیج پلے میں کردار نبھانے میں کام یاب ہوگیا، اگرچہ وہ ایک معمولی نوعیت کا کردار تھا۔
اپنے والد کی موت کے بعد وراثت کے ایک حصّہ سے کچھ رقم پانے کے بعد اورسن ویلز نے یورپ کا سفر کیا تھا۔ وہ آئرلینڈ میں تھا جہاں ایک روز کچھ سوچ کر ڈبلن میں ‘گیٹ تھیٹر’ کے دفتر میں داخل ہوگیا اور وہاں کے منیجر کے سامنے دعویٰ کیا کہ وہ براڈ وے اسٹار ہے اور ان کے ساتھ کام کرنا چاہتا ہے۔ منیجر سمجھ گیا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے، اس کے باوجود اورسن ویلز کا آڈیشن لیا۔ قسمت اس نوجوان لڑکے پر مہربان تھی اور اس نے اپنے پُرجوش انداز اور اعتماد سے منیجر کو متاثر کرلیا۔ یوں تھیٹر کی دنیا میں اورسن ویلز کا سفر شروع ہوا۔
اورسن ویلز کو ریڈیو، تھیٹر اور فلم کے ہدایت کار، پروڈیوسر اور اسکرین رائٹر ہی نہیں اداکار کے طور پر بھی پہچانا جاتا ہے، لیکن اس کا امتیازی وصف اور وجہِ شہرت وہ انفرادیت ہے جس کا اظہار اس نے اپنے تخلیقی جوہر اور اختراع سازی کی صلاحیت کے ساتھ کیا۔ اور اس کی مثال اورسن ویلز کی فلم ’سٹیزن کین‘ (Citizen Kane) ہے۔ اس فلم کو ایک اثاثہ اور فلمی تاریخ کا اہم کارنامہ کہا جاتا ہے۔
اورسن ویلز 24 سال کا تھا جب اس کی تصویر مشہورِ زمانہ ٹائم میگزین کے سرورق پر شائع ہوئی۔ اس کا سبب وہ حیرت انگیز کام تھا جو اس نے ریڈیو کے لیے سر انجام دیا تھا۔
تھیٹر اور اسٹیج کی دنیا اورسن ویلز کو ریڈیو تک لے گئی تھی جو اُس زمانے کا ایک مقبول میڈیم تھا۔ وہ ریڈیو پروڈیوسر تھا جب اس نے مشہور ادیب ایچ جی ویلز کے ناول ’وار آف دی ورلڈز‘ کو ڈرامائی تشکیل کے بعد ریڈیو پر پیش کیا۔
قارئین! آج 30 اکتوبر ہے اور 1938ء میں اسی روز امریکا میں اکثر شہروں اور مختلف مقامات پر افراتفری اور بھگدڑ دیکھی گئی تھی۔ لوگ اچانک خوف زدہ ہو کر اور شدید پریشانی کے عالم اپنے گھروں کی طرف یا کسی محفوظ مقام کی تلاش میں تھے۔ ان میں اکثریت ریڈیو کے سامعین کی تھی جن کو ایک پروگرام کے ذریعے معلوم ہوا تھا کہ مریخ کی مخلوق نے زمین پر حملہ کر دیا ہے۔ ایک رپورٹر اس افتاد کا آنکھوں دیکھا حال براہِ راست بتا رہا تھا۔
یہ سب ریڈیو پروڈیوسر اورسن ویلز کا کیا دھرا تھا! اس نے ایچ جی ویلز کے ناول کو ریڈیو پر اس طرح پیش کیا کہ سامعین نے اسے حقیقت تصوّر کر لیا اور رپورٹر کی زبانی جو باتیں ان تک پہنچ رہی تھیں، انھیں مان کر بدحواس اور سراسیمہ ہوگئے۔ یوں ایک ریڈیو پروڈیوسر کے طور پر اورسن ویلز کو امریکا بھر میں شہرت ملی، لیکن حقیقت سامنے آنے کے بعد ان پر تنقید بھی کی گئی اور انھیں غیر ذمہ دار بھی کہا گیا۔
اس واقعے کے کئی برس بعد اورسن ویلز نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ سنسنی خیزی کے قائل نہیں ہیں اور ریڈیو پروگرام میں انھوں نے جو کچھ کیا، اس کا ایک مقصد یہ دکھانا تھا کہ امریکا کے عوام کس طرح ہر بات پر اندھا دھند یقین کر لیتے ہیں اور کیسے آسانی سے افراتفری کا شکار ہوجاتے ہیں۔
اپنے مذکورہ کارنامے کے تین برس بعد ہی اورسن ویلز نے فلم ’سٹیزن کین‘ بنائی تھی جسے ناقدین کی اکثریت نے بہت سراہا اور اسے اہم کام قرار دیا تھا۔
اورسن ویلز نے ریڈیو، اسٹیج اور فلم کی دنیا میں اپنے منفرد کام کی بدولت کئی اعزازات اپنے نام کیے۔ ہالی وڈ اور امریکا کے بڑے اور مشہور پروڈکشن ہاؤسز کے لیے کام کرنے والے اس فن کار کو انڈسٹری کے مختلف شعبہ جات میں کام کرنے کا وسیع تجربہ تھا۔ اورسن ویلز کا انتقال دل کا دورہ پڑنے کے سبب ہوا تھا۔
اورسن ویلز نے کئی مشہور ناولوں کی ڈرامائی تشکیل کی، متعدد اسٹیج پلے اور فلموں کا اسکرپٹ بھی تحریر کیا اور ہدایت کار کے طور پر بھی ان میں اپنی مہارت سے رنگ بھرے۔
اس ضمن میں بطور مثال یہ چند نام قابلِ ذکر ہیں۔ Touch of Evil سے آغاز کریں تو یہ 1958ء میں اورسن ویلز کے قلم سے نکلی تھی اور وہ اس کے ہدایت کار بھی تھے۔ 1942ء میں شائقین نے The Magnificent Ambersons دیکھی جس کے مصنّف، ہدایت کار اور پروڈیوسر بھی اورسن ویلز تھے۔ 1947ء میں وہ The Lady from Shanghai کے ہدایت کار کی حیثیت سے سامنے آئے اور 1962ء میں اورسن ویلز The Trial کے ہدایت کار بنے جو ممتاز ناول اور افسانہ نگار فرانز کافکا کی ایک کہانی پر مبنی تھی، اسے اورسن ویلز نے اسکرین کے لیے ڈھالا تھا۔ اورسن ویلز کی نظر میں یہ ان کے فنی کیریئر کا سب سے بہترین کام تھا۔