پابلو نرودا لاطینی امریکا کا وہ انقلابی شاعر تھا جس نے دنیا بھر میں ایک انسان دوست اور مساوات کے پرچارک کی حیثیت سے شہرت پائی۔ اس کی شاعری کا کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا اور اس کی نظمیں بہت مقبول ہوئیں جن کے ذریعے اس نے امن اور مساوات کا پیغام دیا ہے۔
ہسپانوی زبان کے شاعر پابلو نرودا نے رومانوی اور کیف آگیں نغمات بھی لکھے جن میں جذبات و احساسات کی فراوانی ہے اور ہر عمر اور طبقۂ عوام کو متاثر کیا۔ 1971ء میں پابلو نرودا کو ادب کا نوبل انعام دیا گیا تھا۔
پابلو نرودا کا وطن چِلی تھا جہاں اس نے 12 جولائی 1904ء میں آنکھ کھولی اور اپنی زندگی کے مختلف ادوار میں سیاست و سماج میں تصادم، استحصال، خوں ریزی اور خاص طور پر غریب و محنت کش عوام کو دکھی، وا ماندہ و بدحال ہی دیکھا۔ پابلو نرودا نے اس کے خلاف آواز بلند کی اور یہ سب اپنی نظموں میں بیان کیا۔ 23 ستمبر 1973ء کو پابلو نرودا کی موت واقع ہوگئی۔ لیکن اسے قتل کہا جاتا ہے۔ اس شاعر کی پراسرار موت سے متعلق کہا جاتا ہے کہ اسے اپنے وقت کے ایک آمر جنرل آگسٹو پنوشے کے حکم پر قتل کیا گیا تھا۔ لیکن اسے ثابت نہیں کیا جاسکا۔
ہندوستان کے ترقی پسند شاعر اور ادیب علی سردار جعفری بھی پابلو نرودا کی شخصیت اور اس کی فکر کے شیدائی رہے ہیں، وہ لکھتے ہیں:’’پابلو نرودا ایک کھوئی کھوئی سی دلآویز شخصیت کا مالک اور ہسپانوی زبان کا سب سے بڑا شاعر ہے اور پکاسو کی تصویروں، اپنے ملک کے پہاڑوں، سمندروں، پھلوں اور ہندوستانی حُسن کا عاشق ہے۔ اس کی شاعری بے حد حسین اور مترنم ہے اور اتنی ہی انقلابی۔ چِلی کے کان کھودنے والے مزدوروں سے لے کر سوویت یونین کے عوام تک ہرشخص اسے جانتا ہے۔
کسی زمانے میں اس کے سَر پر موت کی تلوار لٹک رہی تھی اور وہ دیس بہ دیس مارا مارا پھر رہا تھا۔ اب اس کے سَر پر شہرت اور عظمت کا تاج ہے اور وہ خواب آلود لہجے میں بات کرتا ہے، جیسے کہیں دور پانی برس رہا ہو یا صنوبر اور چیر کے درختوں سے ہوا آہستہ آہستہ گزر رہی ہو۔
وہ اسپین کی خانہ جنگی میں بارود کی بو سونگھ چکا ہے اور خون کا رنگ دیکھ چکا ہے لیکن اس کا سانس دنیا کے نہ جانے کتنے ملکوں کے پھولوں کی خوش بو سے بسا ہوا ہے اور یہ خوش بو اس کے نغمات میں منتقل ہوتی جا رہی ہے۔‘‘
پابلو نرودا نے ایک نظریاتی شخصیت اور انقلاب اور رومان کے شاعر کی حیثیت سے دنیا میں نام کمایا، ادب کا نوبل انعام پایا، لیکن اس سفر میں تنگ دستی اور غربت کے ساتھ طرح طرح کی دوسری صعوبتیں اٹھانا پڑیں، روپوشی، گرفتاری اور جلاوطنی جھیلنے کے ساتھ وہ انقلابی نظمیں لکھتا رہا، جو غریب اور محکوم طبقے، چلی کے محنت کش اور مزدوروں میں جوش و ولولہ پیدا کرتیں اور انھیں اپنے حق کے لیے ڈٹے رہنے پر اکساتی تھیں۔ اس کی ہسپانوی زبان میں شاعری کا دنیا کی متعدد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا جن میں انگریزی، ہندی اور اردو بھی شامل ہیں۔
پابلو نرودا نے کمیونسٹ پارٹی کے رکن تھے۔ ان کے زمانے میں معاشرہ رومانوی شاعری میں بے باکی کے لیے تیّار نہ تھا، لہٰذا قدامت پسندوں نے انھیں شہوت انگیز اور ہیجانی شاعر کہہ کر مسترد کیا، لیکن ان کے انسان دوست نظریات اور رومانوی شاعری کے امتزاج نے انھیں دنیا بھر میں مقبولیت دی۔
نرودا کی شہرۂ آفاق کتاب "محبت کی نظمیں اور بے بسی کا گیت” میں رومانوی رجحانات کی واضح بازگشت سنائی دیتی ہے۔ ایک نظم کے چند بند کا ترجمہ ملاحظہ کیجیے جو امنِ عالم کا ایک شان دار قصیدہ ہے، اور شاعر کے جذبۂ حبُ الوطنی کو بھی سامنے لاتا ہے۔
مجھے اپنے چھوٹے سے سرد ملک کی سرزمین سے
اگنے والے پیڑوں کی جڑوں تک سے محبت ہے
اگر مجھے ہزار بار مرنا پڑے
تو میں اس سر زمین پر مروں گا
اگر مجھے ہزار بار پیدا ہونا پڑے
تو میں اس سر زمین پر پیدا ہوں گا
بلند قامت صنوبروں کے قریب
وہاں جہاں جنوبی ہوائیں طوفان خیز ہیں
اور نئی خرید ی ہوئی گھنٹیاں بج رہی ہیں
اور پھر دیکھیے کہ یہ حبُ الوطنی ساری دنیا کی محبّت کے سمندر کی ایک لہر بن جاتی ہے۔
کسی کو میرے بارے میں سوچنے کی ضرورت نہیں ہے
ہمیں سارے کرۂ ارض کے بارے میں سوچنا ہے
آؤ میزوں پر محبّت کے ڈھیر لگا دیں
میں نہیں چاہتا کہ خون دوبارہ
روٹیوں کو اور اناج کو اور موسیقی کو شرابور کر دے
میری خواہش ہے کہ سب میرے ساتھ آئیں
کان کن، ننھی سی لڑکی
وکیل، ملاح، گڑیاں بنانے والے
سب میرے ساتھ آئیں اور ہم مل کر سنیما دیکھیں
اور سرخ سے سرخ تر شراب پییں
میں کوئی مسئلہ حل کرنے نہیں آیا ہوں
میں تو یہاں گانے آیا ہوں
اور چاہتا ہوں کہ تم بھی میرے ساتھ گاؤ