اتوار, جون 29, 2025
ہوم بلاگ صفحہ 809

سکھر اور روہڑی کے درمیان 300 فٹ بلندی پر واقع تاریخی مزار کس کا ہے؟

0

سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر اور اس کے جڑواں روہڑی کے درمیان ایک ایسی روحانی وادی موجود ہے جہاں 300 فٹ بلندی پر تاریخی مزار واقع ہے۔

اے آر وائی نیوز کی نمائندہ سحرش کھوکھر کے مطابق سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر کے جڑواں شہر روہڑی کے قریب، ایک ایسی روحانی وادی موجود ہے جہاں عقیدت اور سچائی کے چراغ صدیوں سے روشن ہیں۔

یہ جگہ پیر سید شاہ مقصود علی شاہ کے دربار کے نام سے مشہور ہے، جو ایک 300 فٹ ببلند پہاڑی پر واقع ہے اور مزار تک جانے کے لیے دو راستے ہیں۔

ایک راستہ قدرے آسان جو سیڑھیوں کے ذریعے جاتا ہے اور زائرین کو مزار تک پہنچنے کے لیے تقریباً 150 سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیں۔

تاہم دوسرا راستہ دشوار گزار اور پتھریلا ہے جس کھائیوںکے درمیان سے گزرتا اور انتہائی خطرناک تصور کیا جاتا ہے۔

یہ درگاہ صرف ایک زیارت گاہ نہیں بلکہ روحانیت، محبت اور عوامی عقیدت کی ایک زندہ علامت ہے۔ ہر روز سینکڑوں زائرین، مشکلات کے حل اور روحانی سکون کے لیے اس درگاہ پر حاضری دیتے ہیں۔

حضرت پیر شاہ مقصود علی شاہ کو ان کے صوفیانہ مزاج، درویشی اور کرامات کی وجہ سے ان کے عقیدت مندوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ہمیشہ عوام کی بھلائی کے لیے دعاگو رہتے، ان کی مشکلات کا حل نکالتے اور ان کی رہنمائی کرتے۔

ان کے مزار کے ساتھ عقیدت مندوں کی بے شمار داستانیں جڑی ہوئی ہیں، جہاں بزرگوں اور ملنگوں کے مطابق، انہوں نے بے شمار کرامات ہوتے خود دیکھی اور محسوس کی ہیں۔

ایک حیران کن منظر تو یہ دیکھنے کو ملا کہ ایک ضعیف العمر خاتون، جو نہایت کٹھن راستے سے گزر کر درگاہ پر پہنچیں، وہاں دعا مانگی اور پھر لکڑی کا سہارا لے کر پہاڑ سے نیچے اتر گئیں۔

کہا جاتا ہے کہ ان بزرگ کا مقبرہ کسی ہندو دیوان نے تعمیر کرایا تھا، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی دیکھ بھال کم ہوتی گئی۔

 

یہ درگاہ نہ صرف ایک روحانی مقام ہے بلکہ یہاں سے سکھر، روہڑی اور دریائے سندھ کے حسین نظارے بھی دیکھے جا سکتے ہیں، جو سیاحت کے فروغ میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔

اگر اس درگاہ کی مناسب تزئین و آرائش کی جائے، تو نہ صرف عقیدت مندوں بلکہ ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کے لیے بھی یہ ایک پرکشش مقام بن سکتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ متعلقہ حکام اس تاریخی اور روحانی مقام کی دیکھ بھال کریں تاکہ یہ نہ صرف زائرین کے یے آسانی پیدا کرے بلکہ سیاحتی مقام کے طور پر بھی اپنی اہمیت برقرار رکھ سکے۔

کراچی کنگز میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں، پہلا مقصد ملتان سلطانز کو ہرانا ہے، ڈیوڈ وارنر

0
کراچی کنگز کے کپتان ڈیوڈ وارنر کا فینز کیلئے پیغام

کراچی کنگز کے کپتان ڈیوڈ وارنر کا کہنا ہے کہ ٹیم میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں، ہمارا پہلا مقصد ملتان سلطانز کو ہرانا ہے۔

کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کپتان ڈیوڈ وارنر نے کہا کہ ہماری ٹیم کوالٹی کھلاڑیوں پر مشتمل ہے، ہم مرحلہ وار آگے بڑھنا چاہتے ہیں، گرم موسم میں ہمارے سیشنز ہوئے ہیں، آسٹریلیا جیسی گراسی وکٹ ملی ہے۔

 انہوں نے کہا کہ پی ایس ایل میں آنا میرے لیے خوش آئند ہے، مثبت سوچ کے ساتھ کرکٹ کھیلنے کا ارادہ رکھتے ہیں، ٹیم کا ماحول بہت اچھا ہے، ٹورنامنٹ انجوائے کرنا چاہتے ہیں۔

PSL 10- پی ایس ایل  کی تمام خبریں

انہوں نے کہا کہ ہر میچ کی پچ کنڈیشنز دیکھ کر پلیئنگ الیون میں تبدیلیاں کرتے رہیں گے۔

واضح رہے کہ پی ایس ایل سیزن 10 میں کل کراچی کنگز اور ملتان سلطانز کی ٹیمیں نیشنل بینک اسٹیڈیم میں مدمقابل ہوں گی۔

یہ پڑھیں: ’مجھ سے انگریزی کی ڈیمانڈ ہے تو کرکٹ چھوڑ کر پروفیسر بن جاؤں

دوسری جانب سلطانز کے کپتان محمد رضوان نے کہا کہ شائقین سے صرف درخواست کی جاسکتی ہے کہ یہ پی ایس ایل ہے انٹرنیشنل ٹورنامنٹ اور پاکستان برینڈ میں فرق رکھیں پاکستان سپرلیگ ایسا پلیٹ فارم جس میں سب اکھٹا ہوجاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ شائقین کا غصہ بھی جائز ہے کیونکہ ہم عالمی سطح پر اچھا پرفارم نہ کر سکے ہماری ٹیم بہت محنت کرتی ہے، ہم پروفیشنل لیول پر شاید غلطیاں کر دیتے ہیں یقین ہے کہ پی ایس ایل کے بعد پاکستان کی کرکٹ بدلی دکھائی دے گی۔

رضوان نے کہا کہ کراچی کنگز کی بیٹنگ بہت اچھی ہے دنیائے کرکٹ کے بڑے نام کراچی کنگز کیساتھ ہے پلئینگ الیون صورتحال کے مطابق کھیلے وہی کامیاب رہتی ہے فی الحال کراچی کنگز کیخلاف کوئی پلاننگ نہیں کی ہے، پچ کو دیکھ کر حتمی پلاننگ کریں گے ہمارے لیے ہر میچ اہمیت رکھتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میرے الفاظ پر کوئی مزاق بنائے مجھے فرق نہیں پڑتا کیونکہ مجھے انگریزی زبان نہیں آتی ہے میری ڈیمانڈ انگریزی بولنا نہیں بلکہ اچھی کرکٹ کھیلنا ہے افسوس ہے کہ اپنی تعلیم مکمل نہیں کرسکا ہوںاگر مجھ سے ڈیمانڈ صرف انگریزی کی ہے تو کرکٹ چھوڑ کر کہیں پروفیسر بن جاوں۔

’مجھ سے انگریزی کی ڈیمانڈ ہے تو کرکٹ چھوڑ کر پروفیسر بن جاؤں‘

0

قومی ٹیم اور ملتان سلطانز کے کپتان محمد رضوان نے شائقین سے درخواست کر دی۔

کراچی کنگز سے ہفتے ہوئے ہونے والے مقابلے سے قبل پریس کانفرسن کرتے ہوئے محمد رضوان نے کہا کہ شائقین سے صرف درخواست کی جاسکتی ہے کہ یہ پی ایس ایل ہے انٹرنیشنل ٹورنامنٹ اور پاکستان برینڈ میں فرق رکھیں پاکستان سپرلیگ ایسا پلیٹ فارم جس میں سب اکھٹا ہوجاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ شائقین کا غصہ بھی جائز ہے کیونکہ ہم عالمی سطح پر اچھا پرفارم نہ کر سکے ہماری ٹیم بہت محنت کرتی ہے، ہم پروفیشنل لیول پر شاید غلطیاں کر دیتے ہیں یقین ہے کہ پی ایس ایل کے بعد پاکستان کی کرکٹ بدلی دکھائی دے گی۔

رضوان نے کہا کہ کراچی کنگز کی بیٹنگ بہت اچھی ہے دنیائے کرکٹ کے بڑے نام کراچی کنگز کیساتھ ہے پلئینگ الیون صورتحال کے مطابق کھیلے وہی کامیاب رہتی ہے فی الحال کراچی کنگز کیخلاف کوئی پلاننگ نہیں کی ہے، پچ کو دیکھ کر حتمی پلاننگ کریں گے ہمارے لیے ہر میچ اہمیت رکھتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میرے الفاظ پر کوئی مزاق بنائے مجھے فرق نہیں پڑتا کیونکہ مجھے انگریزی زبان نہیں آتی ہے میری ڈیمانڈ انگریزی بولنا نہیں بلکہ اچھی کرکٹ کھیلنا ہے افسوس ہے کہ اپنی تعلیم مکمل نہیں کرسکا ہوںاگر مجھ سے ڈیمانڈ صرف انگریزی کی ہے تو کرکٹ چھوڑ کر کہیں پروفیسر بن جاوں۔

آئی سی سی ویمنز ورلڈ کپ کوالیفائر، پاکستان نے اسکاٹ لینڈ کو شکست دے دی

0

آئی سی سی ویمنز ورلڈ کپ کوالیفائر میں پاکستان نے اپنا دوسرا میچ بھی جیت لیا۔

پاکستان ویمنز نے اسکاٹ لینڈ کو باآسانی 6 وکٹوں سے شکست دے دی، پاکستان نے اسکاٹ لینڈ کی جانب سے دیا جانے والا 187 رنز کا ہدف 31ویں اوور میں حاصل کرلیا۔

مبینہ علی نے 71 رنز کی شاندار اننگز کھیلی، عالیہ ریاض 68 رنز بنا کر ناقابل شکست رہیں۔

اس سے قبل اسکاٹ لینڈ نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مقررہ اوورز میں 9 وکٹوں کے نقصان پر 186 رنز بنائے تھے۔

کیتھرن برائس کی 91 رنز کی اننگز رائیگاں گئی، پاکستان کی جانب سے فاطمہ ثنا نے چار کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی، سدرہ اقبال نے دو کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔

واضح رہے کہ بارش کی وجہ سے میچ 32 اوور فی اننگز تک محدود کیا گیا تھا۔

رفیع پیر:‌ بلند پایہ فن کار، باکمال رائٹر

0

پاکستان میں‌ فنونِ لطیفہ اور ثقافت کے فروغ کے لیے بے مثال خدمات انجام دینے والی شخصیات میں سے ایک رفیع پیر ہیں‌ جو بطور ڈرامہ نویس، ہدایت کار اور اداکار بھی ممتاز ہوئے۔ ان کی ڈرامہ نگاری کے موضوعات میں معاشرتی، ثقافتی، اور تاریخی پس منظر کی گہرائی کے ساتھ انسانیت، طبقاتی فرق، اور معاشرتی انصاف نمایاں ہیں۔

کسی بھی معاشرے میں‌ تنقیدی شعور اجاگر کرنے کے لیے فنونِ لطیفہ اور فن کار بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ رفیع پیر نے بیسویں صدی کے ابتدائی اور وسطی عشروں میں تھیٹر اور ڈرامہ کے ذریعے شعور اور آگاہی پھیلانے کا کام کیا۔ آج رفیع پیر کی برسی ہے۔

"پیر صاحب دراز قد آدمی تھے۔ وفورِ ذہانت سے چمکتی ہوئی آنکھیں، شفاف و کشادہ پیشانی، ناک اونچی جو چہرے پر نمایاں تھی۔ پیر صاحب کم گو تھے۔ لب و لہجہ دھیما مگر ڈرامائی کیفیت سے بھرپور، دورانِ گفتگو ان کی آنکھیں یوں دکھائی دیتی تھیں جیسے ایک ایک لفظ سوچ کر کہہ رہے ہوں۔”

یہ چند سطری شخصی خاکہ میرزا ادیب کے قلم سے نکلا ہے اور یہ اُس مضمون سے لیا گیا ہے جو رفیع پیر کے ڈرامے کے نام سے ان کی مرتب کردہ کتاب میں شامل ہے۔ رفیع پیر سے متعلق اپنے اس مضمون میں میرزا ادیب مزید لکھتے ہیں: "رفیع پیر نے ڈرامے کی تربیت جرمنی میں پائی تھی اور جب بارہ برس تک جرمن اسٹیج پر عملاً حصّہ لینے کے بعد وطن لوٹے تھے تو ان کا سینہ نئی نئی امنگوں اور نئے نئے ولولوں سے معمور تھا۔ انھوں نے آتے ہی آل انڈیا ریڈیو پر لاہور سے اپنی آواز کا جادو اس انداز سے جگایا کہ ہزاروں کے دل موہ لیے۔ اس وقت ریڈیو سے باہر بھی ایسے لوگ موجود تھے جو ڈرامے میں خصوصی شہرت کے مالک تھے مگر پیر صاحب ان سے الگ تھلگ اور منفرد نظر آئے تھے۔”

"ان کے یوں الگ تھلگ اور منفرد نظر آنے کی وجہ یہ تھی کہ پیر صاحب صدا کار ہی نہیں تھے، تمثیل نگار بھی تھے، اداکار بھی تھے اور ہدایت کار بھی۔ اور ان سبھی شعبوں میں انھیں‌ کمال حاصل تھا۔”

رفیع پیر ایک نہایت بلند پایہ فن کار اور ادیب تھے جس کا اعتراف ان کے دور کی ممتاز ہستیوں نے بھی کیا ہے۔ رفیع پیر کو تھیٹر، پتلی تماشہ، فلم اور ڈرامہ، رقص اور موسیقی میں کمال حاصل تھا۔ وہ باکمال صداکار، بہترین رائٹر اور اداکار تھے۔ انھوں نے دورانِ تعلیم اور بیرونِ ملک قیام کے دوران اپنی تعلیم اور پیشہ ورانہ زندگی کے تجربات سے جو کچھ جانا اسے اپنے ڈراموں‌ اور مضامین میں سمو کر تھیٹر کی مدد سے آگے بڑھایا۔ رفیع پیر فنونِ لطیفہ کے میدان میں اپنی فکر اور فن کی بدولت خوب جانے گئے۔

رفیع پیر کے دادا، پیر قمر الدّین پولیٹیکل ایجنٹ تھے اور بنّوں میں تعینات تھے۔ یہ خاندان کشمیر سے گجرات میں آکر آباد ہوا تھا، وہاں سے پیر قمر الدّین لاہور چلے آئے۔ ان کے بیٹے پیر تاج الدّین نے اوکسفرڈ یونیورسٹی سے وکالت کی تعلیم مکمل کی اور وہیں ایک برطانوی خاتون سے شادی کر لی۔ رفیع پیرزادہ نے اسی جوڑے کے گھر 1898ء میں بنّوں میں آنکھ کھولی۔ رفیع پیر کے داد کا شاعرِ مشرق علاّمہ اقبال سے گہرا قلبی تعلق اور دوستی تھی۔ رفیع پیر کو شروع ہی سے علمی و ادبی ماحول ملا اور وہ فنونِ لطیفہ میں دل چسپی لینے لگے۔ بعد میں اسی سلسلے میں تعلیمی مدارج طے کیے۔

جب رفیع پیر اسکول میں زیرِ تعلیم تھے، تو ہندوستان کی ایک مشہور تھیٹر کمپنی، دادا بھائی ٹھوٹھی ان کے شہر میں تھیٹر سجانے کے لیے آئی۔ رفیع پیر بھی شو دیکھنے گئے اور وہاں انھیں‌ بہت لطف آیا۔ اگلے روز پھر شو دیکھنے پہنچ گئے۔ معلوم ہوا کہ یہ تھیٹر کا آخری روز ہے۔ اب یہ تماشا لگانے والے دلّی چلے جائیں‌ گے۔ کم عمر رفیع پیر کے دل میں کیا آیا کہ کچھ سوچے سمجھے بغیر ان لوگوں کے ساتھ دلّی جا پہنچے۔ اہلِ خانہ ان کے یوں لاپتا ہوجانے پر سخت پریشان تھے۔ اتفاق دیکھیے کہ دلّی میں جب تھیٹر کے منتظمین نے اپنا شو شروع کیا تو اس روز وہاں جو شخصیت بطور خاص مدعو تھی، وہ رفیع پیر کے دادا قمر الدّین کے قریبی دوست تھے۔ ان کی نظر اس بچّے پر پڑی تو جھٹ پہچان لیا اور اس سے مل کر دریافت کہا کہ یہاں کیسے اور کس کے ساتھ آئے ہو؟ اس پر معلوم ہوا رفیع پیر تھیٹر کے شوق میں بغیر بتائے گھر سے یہاں پہنچ گئے ہیں۔ فوراً اس بچّے کے گھر والوں سے رابطہ کیا اور ان کو مطمئن کرنے کے بعد چند روز میں رفیع پیر کو لاہور پہنچا دیا۔ اس واقعے سے رفیع پیر کی ڈرامہ اور اداکاری سے لگاؤ کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

رفیع پیر نے جب گورنمنٹ کالج، لاہور میں داخلہ لیا، تو اُس وقت تحریکِ خلافت زوروں پر تھی۔ وہ غور و فکر کرنے کے عادی، متجسس اور مہم جُو قسم کے نوجوان تھے جو سنجیدہ بھی تھے اور سیاسی و سماجی شعور بھی رکھتے تھے۔ رفیع پیر اس کے سرگرم رکن بن گئے۔ رفیع پیر کے دادا کے دیرینہ رفیقوں میں مولانا محمد علی جوہر بھی شامل تھے۔ رفیع پیر ان کے زورِ خطابت اور شعلہ بیانی سے بہت متأثر تھے۔ اکثر جلسوں میں اگلی صفوں میں نظر آتے اور پُرجوش انداز میں سب کے ساتھ مل کر خوب نعرے لگاتے۔ تحریک کے قائدین کے ساتھ ساتھ ایسے سرگرم کارکنوں‌ اور تحریک کے متوالوں پر پولیس نظر رکھتی تھی۔ رفیع پیر بھی ایک روز پولیس کی نظروں میں آ گئے اور جب اس کا علم اہلِ خانہ کو ہوا تو رفیع پیر کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کی غرض سے فوری لندن بھیجنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ یوں 1916ء میں رفیع پیر قانون کے طالبِ علم بن کر اوکسفرڈ میں داخل ہوگئے۔ لیکن انگریز راج سے نفرت کرنے والے رفیع پیر وہاں سے تعلیم مکمل نہ کرسکے اور 1919ء میں جرمنی چلے گئے، جہاں ایک جامعہ کے شعبۂ فلاسفی میں داخلہ لے لیا۔ یہ اُن کا پسندیدہ مضمون تھا۔ بعد میں‌ وہ برلن گئے جسے پورے یورپ میں اس دور میں فن و ثقافت کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ جرمن عوام موسیقی، ڈرامے اور تھیٹر کے رسیا تھے۔ یہ دنیا رفیع پیر کے لیے طلسماتی دنیا ثابت ہوئی۔ رفیع پیر کو وہاں‌ برلن تھیٹر کے معروف ڈائریکٹر، فٹز لانگ کے قریب آنے کا موقع ملا اور پھر وہ برلن تھیٹر سے وابستہ ہوگئے۔ جرمنی میں‌ قیام کے دوران رفیع پیر نے ایک مقامی خاتون سے شادی کر لی۔ جرمنی میں نازی برسرِ اقتدار آ گئے تو رفیع پیر ہٹلر سے اپنی نفرت اور کچھ دوسرے معاملات کی وجہ سے ہندوستان چلے آئے، لیکن خدشات کے پیشِ نظر اہلیہ اور اپنی اکلوتی بیٹی کو وہیں چھوڑ آئے۔ بدقسمتی سے ان کی اہلیہ برلن پر اتحادی افواج کی بم باری کے دوران ماری گئیں۔ رفیع پیر کی اکلوتی بیٹی کسی طرح بچ گئی تھیں اور انھوں نے طویل عمر پائی۔

رفیع پیر 1930ء کی دہائی کے اوائل میں ہندوستان واپس آئے۔ اس زمانے میں وہ جدید تھیٹر کی تعلیم و تربیت مکمل کرکے آنے والے واحد ہندوستانی تھے۔ یہاں انھوں نے ’’انڈین اکیڈمی آف آرٹس‘‘ قائم کی، جس سے نکلنے آگے چل کر فلم اور تھیٹر کی دنیا میں نام وَر ہوئے اور مختلف شعبہ جات میں اپنی اداکاری، صدا کاری اور قلم کا زور آزمایا۔ اسی زمانے میں رفیع پیر نے پنجابی کا مشہور ڈرامہ ’’اکھیاں‘‘ تحریر اور اسے اسٹیج کیا۔ اکھیاں ریڈیو سے نشر ہونے والا پہلا پنجابی کھیل تھا جس کے بعد انھوں‌ نے پنجابی زبان میں مزید ڈرامے تحریر کیے۔ ان کا آخری ڈراما ٹیلی ویژن کے لیے لکھا گیا تھا۔ اس زمانے میں ان کے نظر ثانی شدہ اسکرپٹ پر چیتن آنند نے اردو زبان میں فلم، ’’نیچا نگر‘‘ بنائی، جو قیامِ پاکستان سے قبل ریلیز ہوئی اور اس نے 1948ء کے کانز فلم فیسٹیول میں سال کی بہترین فلم کا ایوارڈ بھی حاصل کیا۔ اس فلم میں رفیع پیر نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔

ہندوستان میں بمبئی، کلکتہ اور دہلی کی فلم نگری میں رفیع پیر کی صلاحیتوں اور تھیٹر، ڈرامہ کی پیش کاری میں ان کی مہارت کا خوب چرچا ہوا۔ رفیع پیر نے اس دور میں‌ تھیٹر کمپنی کے ساتھ کئی ڈرامے اسٹیج کیے اور لکھنے، پڑھنے کا کام آخری دَم تک جاری رکھا۔

ہندوستان لوٹنے کے بعد والدہ کے اصرار پر رفیع پیر نے دوسری شادی کر لی۔ برلن سے واپسی کے بعد رفیع پیرزادہ نے ہندوستان میں کم و بیش 12 برس گزارے اور اس دوران بمبئی، کلکتہ اور دہلی کے فلم نگر میں زبردست کام کیا۔ اس عرصے میں انہوں نے جان اینڈرسن نامی تھیٹر کمپنی کے ساتھ کئی ڈرامے اسٹیج کیے۔ بمبئی میں قیام کے دوران ’’وائس آف انڈیا‘‘ سے بھی منسلک رہے۔ اوم پرکاش، کامنی کوشل اور پرتھوی راج جیسے بڑے اداکار ان کے گہرے دوستوں میں شامل تھے اور ان کی صلاحیتوں کے معترف بھی تھے۔ پرتھوی راج نے اُن کے ساتھ مل کر ایک تھیٹر کمپنی بھی بنائی تھی، جس نے شیکسپیئر کے ڈراموں کو خوبی سے اسٹیج پر پیش کیا۔ ان میں مرکزی کردار خود رفیع پیر ادا کرتے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد انھیں لاہور چھوڑ کر بھارت چلے جانے والے ہندوؤں کے اسٹوڈیوز کو سنبھالنے کا موقع ملا جسے انھوں نے بخوبی آگے بڑھایا۔ بعد ازاں، رفیع پیر نے ’’تصویر محل‘‘ نامی تھیٹر کمپنی کی بنیاد رکھی۔ پاکستان کا پہلا ریڈیو اسٹیشن قائم کرنے میں بھی ان کا اہم کردار رہا اور اس میڈیم کے ذریعے کئی بہترین کھیل سامعین تک پہنچائے جن میں پنجابی کھیل ’’اکھیاں‘‘ بھی شامل تھا۔ انھوں نے خواتین کے مسائل اور اُن سے امتیازی سلوک پر اردو اور پنجابی زبان میں ایسے ڈرامے پیش کیے جن کا اُس وقت تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ رفیع پیر نے ریڈیو اور اسٹیج کے سیکڑوں اداکاروں کو تربیت دی۔ ان کے شاگردوں کی فہرست طویل ہے جو بعد میں ملک کے بڑے فن کاروں میں شامل ہوئے۔

تقسیمِ ہند کے بعد 1947ء میں وہ اپنے کنبے کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔ رفیع پیر پاکستان کے ایسے ڈرامہ نگار، صدا کار اور اداکار تھے جن کی موت پر بھارت میں بھی اہلِ علم و فنون نے افسوس کا اظہار کیا اور ان کی رحلت کو جہانِ فن کا بڑا نقصان قرار دیا۔ رفیع پیر نے 1974ء میں آج ہی کے روز وفات پائی۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ رفیع پیر کی اولاد نے بھی فنونِ لطیفہ کے میدان میں اپنے والد کی طرح معیار اور شان دار کام کیا۔ رفیع پیر کے انتقال کے بعد ان کے بیٹوں نے ’’رفیع پیر تھیٹر‘‘ کی بنیاد رکھی جس کے تحت بہترین اور بامقصد ڈرامے پیش کیے گئے۔ بالخصوص ’رفیع پیر ورلڈ پرفارمنگ آرٹس فیسٹیولز‘ کا آغاز کر کے فن و ثقافت کے شعبے میں اہم اور منفرد کام کیا۔ اس گھرانے کے قابل و باصلاحیت ناموں میں عثمان پیرزادہ، ان کی شریکِ حیات ثمینہ پیرزادہ کے علاوہ رفیع پیر کے بڑے صاحب زادے سلمان پیرزادہ بھی شامل ہیں۔

اسٹیج اداکارہ کے ساتھ افسوسناک واقعہ

0
لاہور مانگا منڈی اجتماعی زیادتی

پنجاب میں اسٹیج اداکارہ کے ساتھ افسوسناک واقعہ پیش آگیا۔

ریسکیو حکام کے مطابق اسٹیج اداکارہ کو اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے اور متاثرہ خاتون کے ٹیسٹ کیے جارہے ہیں اور علاج جاری ہے۔

واقعہ صادق آباد میں پیش آیا جہاں اسٹیج اداکارہ سے 3 افراد نے مبینہ اجتماعی زیادتی کی ہے۔ خاتون نے الزام عائد کیا کہ ملزمان پارٹی کیلئے ڈیرے پر لے کر گئے اور نشہ آور جوس پلاکر زیادتی کی۔

ڈی پی او کا کہنا ہے کہ اسٹیج اداکارہ کو پارٹی کے بعد مبینہ زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے اور حالت خراب ہونے پر ریسکیو ٹیم نے خاتون اسپتال منتقل کیا ہے۔

اسپتال میں خاتون کو ابتدائی طبی امداد دی جارہی ہے اور ڈاکٹرز نے معائنے کے بعد کچھ طبی ٹیسٹ کروائے ہیں۔

پی ٹی آئی کے 2 ممبران نے جسٹس علی باقر نجفی کی تقرری کی حمایت میں ووٹ دیا

0

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دو ممبران نے جسٹس علی باقر نجفی کی تقرری کی حمایت میں ووٹ دیا۔

اے آر وائی نیوز کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی ممبران نے جسٹس شجاعت علی خان سے متعلق ریمارکس حذف کرنے کی حمایت کی۔

جسٹس علی باقر نجفی کی بطور جج سپریم کورٹ تقرری 10 ممبران کی اکثریت سے کی گئی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ جوڈیشل کمیشن اجلاس میں تین ممبران نے مخالفت میں ووٹ دیا۔

واضح رہے کہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت جوڈیشل کمیشن کا اجلاس ختم ہوگیا جس میں لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی کو سپریم کورٹ کا جج بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔

جوڈیشل کمیشن نے جسٹس علی باقر نجفی کو سپریم کورٹ جج تعینات کی کرنے کی سفارش کردی، ان کی تعیناتی کی منظوری اکثریت کی بنیاد پر دی گئی۔

جوڈیشل کمیشن اجلاس ڈھائی گھنٹے تک جاری رہا جس میں سپریم کورٹ کے دو ججز تعینات کرنے کے لیے غور کیا گیا، اجلاس میں لاہور ہائیکورٹ کے پانچ سینئر ججز کے ناموں پر غور ہوا۔

اجلاس میں لاہور ہائیکورٹ کے لیے صرف ایک جج کے نام پر اکثریتی ووٹ سے فیصلہ ہوا، قائمقام چیف جسٹس کی جگہ جوڈیشل کمیشن کے نئے ممبران کے تقرر کا فیصلہ کیا گیا۔

جسٹس (ر) مقبول باقر کو سندھ سے ممبر جوڈیشل کمیشن تعینات کیا گیا، بلوچستان ہائیکورٹ سے جسٹس (ر) نذیر لانگو کو جوڈٰشل کمیشن ممبر تعینات کرنے کی منظوری دی گئی۔

علاوہ ازیں جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی، جسٹس (ر) شاکر اللہ جان ممبر جوڈیشل کمیشن تعینات کئے گئے، جوڈیشل کمیشن کی جسٹس شجاعت علی سے متعلق ریمارکس حذف کرنے کی متفقہ منظوری دی گئی۔

لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی کو سپریم کورٹ کا جج بنانے کا فیصلہ

0

چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت جوڈیشل کمیشن اجلاس میں لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی کو سپریم کورٹ کا جج بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔

اے آر وائی نیوز کے مطابق چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت جوڈیشل کمیشن کا اجلاس ختم ہو گیا ہے اور ذرائع کا کہنا ہے کہ جوڈیشل کمیشن نے جسٹس علی باقر نجفی کو سپریم کورٹ جج تعینات کرنے کی سفارش کی ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ جسٹس علی باقر نجفی کی تعیناتی کی منظوری اکثریت کی بنیاد پر کی گئی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ میں دو ججوں کی تعیناتی کے لیے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس ڈھائی گھنٹے تک جاری رہا۔

ذرائع کے مطابق اجلاس میں لاہور ہائیکورٹ کے دیگر پانچ سینئر ججز کے ناموں پر بھی غور کیا گیا تاہم ہائی کورٹ کیلیے صرف ایک جج کے نام پر اکثریتی ووٹ سے فیصلہ ہوا جب کہ قائم مقام چیف جسٹس کی جگہ جوڈیشل کمیشن کے نئے ممبران کے تقرر کا بھی فیصلہ کیا گیا۔

ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ جسٹس (ر) مقبول باقر کو سندھ سے اور بلوچستان ہائیکورٹ سے جسٹس (ر) نذیر لانگو کو جوڈیشل کمیشن ممبر تعینات کرنے کی منظوری دی گئی۔

اس کے علاوہ جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی اور جسٹس (ر)شاکر اللہ جان کو بھی ممبر جوڈیشل کمیشن تعینات کیا گیا۔ اجلاس میں جوڈیشل کمیشن کی جسٹس شجاعت علی سے متعلق ریمارکس حذف کرنے کی متفقہ منظوری دی گئی۔

ریزیلینس اینڈ سسٹین ایبل فنڈز کی پہلی قسط حاصل کرنے کیلئے گرین بانڈز کے اجرا کا فیصلہ

0
گرین بانڈز کے اجرا

اسلام آباد : حکومت نے ریزیلینس اینڈ سسٹین ایبل فنڈز کی پہلی قسط حاصل کرنے کیلئے گرین بانڈز کے اجرا کا فیصلہ کرلیا۔

تفصیلات کے مطابق ریزیلئنس اینڈسسٹین ایبل فنڈز کی پہلی قسط حاصل کرنے کیلئے گرین بانڈز کے اجرا کا فیصلہ کرلیا گیا۔

ذرائع نے بتایا کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں گرین بانڈز کا اجرا رواں ماہ یا آئندہ کے دوران متوقع ہے، پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں 30 ارب مالیت کے گرین بانڈز کے اجرا کیا جائے گا۔

آئی ایم ایف کی مشاورت سے اسٹاک ایکسچینج میں بانڈز جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، گرین بانڈز فنانسنگ کو کلائمیٹ چینج کے منصوبوں پر خرچ کیا جائے گا۔

 

View this post on Instagram

 

A post shared by ARY News (@arynewstv)

ذرائع وزارت خزانہ نے بتایا کہ لوکل فنڈز ریزنگ ، پراجیکٹ کی آئی ایم ایف مانیٹرنگ بھی کرے گا، لوکل فنڈز ریزنگ اور پانڈا بانڈز اجرا پر آر ایس ایف کی قسط مل سکے گی۔

ذرائع کے مطابق چائنیز مارکیٹ میں 30 کروڑ ڈالر کا پانڈا بانڈز آئندہ مالی سال نومبریادسمبر میں متوقع ہے تاہم رواں مالی سال کے دوران بانڈز جاری کرنے تھے جو اب نہیں ہوسکے گا۔

برطانیہ جانے کے خواہشمند پاکستانی طلبا کے لئے بڑی خبر

0
برطانیہ گریجویٹ ویزا پالیسی

لندن : برطانیہ جانے کے خواہشمند پاکستانی طلبا کے لئے بڑی خبر آگئی ، گریجویٹ ویزا پالیسی میں بڑی تبدیلیاں زیر غور ہے۔

تفصیلات کے مطابق برطانیہ کی حکومت نیٹ مائیگریشن کم کرنے کی کوششوں کے تحت گریجویٹ ویزا پالیسی میں اہم تبدیلیوں پر غور کر رہی ہے، جس کے باعث ہوم آفس اور محکمہ تعلیم کے درمیان کشیدگی پیدا ہو گئی ہے۔

فنانشل ٹائمز کی رپورٹ میں بتایا گیا مجوزہ اصلاحات کے تحت بین الاقوامی طلباء کو تعلیم مکمل کرنے کے بعد برطانیہ میں قیام کے لیے گریجویٹ سطح کی ملازمت حاصل کرنا ضروری ہوگا۔

ہوم آفس کا کہنا ہے کہ وہ نیٹ مائیگریشن میں کمی کے حکومتی ہدف کو پورا کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔

ایک اہلکار نے بتایا: "ہمیں وزیر اعظم کی جانب سے نیٹ مائیگریشن کم کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے، اور ہم اس پر عمل درآمد کر رہے ہیں، یہ واقعی مایوس کن ہے کہ محکمہ تعلیم نے یونیورسٹیز یو کے کو اس کے خلاف لابنگ کی ترغیب دی۔”

یاد رہے کہ 2021 میں متعارف کرائی گئی موجودہ گریجویٹ ویزا اسکیم کے تحت بین الاقوامی طلباء کو گریجویشن کے بعد دو سال تک برطانیہ میں رہنے کی اجازت حاصل ہے۔ تاہم مائیگریشن ایڈوائزری کمیٹی کی تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ اسکیم کے تحت 60 فیصد سے زائد فارغ التحصیل طلباء ایک سال بعد بھی £30,000 سے کم کما رہے ہیں، جو کہ ایک عام گریجویٹ کی اوسط تنخواہ سے کم ہے۔

دوسری جانب محکمہ تعلیم کو خدشہ ہے کہ ویزا میں تبدیلیاں مالی مشکلات کا شکار یونیورسٹیوں پر مزید دباؤ ڈال سکتی ہیں۔

یونیورسٹیز یو کے کی چیف ایگزیکٹیو ویوین اسٹرن نے کہا کہ اسکیم کو محدود کرنا "غیر دانشمندانہ” فیصلہ ہوگا، کیونکہ بین الاقوامی طلباء ہر سال برطانوی معیشت میں تقریباً £40 بلین کا حصہ ڈالتے ہیں، دو سالہ ویزا طلباء کو عملی تجربہ حاصل کرنے اور ملازمت تلاش کرنے کے لیے ضروری وقت فراہم کرتا ہے۔

متوقع طور پر وزیر اعظم سر کیر اسٹارمر کی زیر قیادت لیبر حکومت اگلے ماہ مائیگریشن پالیسی پر وائٹ پیپر جاری کرے گی، جس میں گریجویٹ ویزا اسکیم میں ممکنہ اصلاحات شامل ہوں گی۔

پچھلی کنزرویٹو حکومت کے برعکس جس نے یونیورسٹیوں پر پڑنے والے اثرات کی وجہ سے صرف معمولی تبدیلیاں کی تھیں تاہم نئی تجاویز میں زیادہ سخت شرائط متعارف کرائے جانے کا امکان ہے۔