جمعرات, اکتوبر 17, 2024
اشتہار

اسرائیل نے دھماکہ خیز ’پیجرز‘ کس طرح ڈیزائن کیے؟ ہولناک انکشافات

اشتہار

حیرت انگیز

گزشتہ ماہ لبنان کے مختلف علاقوں میں پیجرز اور والی ٹاکیز کے پھٹنے سے ہونے والے دھماکوں میں درجنوں افراد کی ہلاکت اور زخمی ہونے کے واقعات پیش آئے۔

لبنان کی مزاحمتی تنظیم حزب اللہ کو فراہم کیے جانے والے پیجرز درحقیقت خوفناک بم تھے، حزب اللہ کو شبہ ہے کہ یہ اسرائیل کے منظم منصوبے کا حصہ تھا۔

یہ واقعہ 2024 کے آغاز میں پیش آیا، حزب اللہ کو دیے گئے عام سے دکھنے والے پیجرز میں انتہائی چالاکی سے تباہ کن بم چھپا کر نصب کیے گئے تھے، جس کا مقصد لبنانی گروپ کو شدید نقصان پہنچانا تھا۔

- Advertisement -

پیجرز دھماکے

غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی تفصیلی رپورٹ کے مطابق پیجرز کی بیٹریوں میں پلاسٹک کے دھماکہ خیز مواد کا ایک چھوٹا لیکن طاقتور چارج موجود تھا۔ لبنانی ذرائع کا کہنا ہے کہ ان میں ایک نیا ڈیٹونیٹر جو ایکسرے اسکینرز میں بھی ظاہر نہیں ہوتا، کو ڈیزائن میں شامل کیا گیا تھا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پیجرز کی بیٹریاں دراصل چھوٹے لیکن طاقتور پلاسٹک بموں پر مشتمل تھیں۔ اس میں ایک نیا قسم کا ڈیٹونیٹر استعمال کیا گیا جو ایکسرے اسکینرز کو دھوکہ دینے کی صلاحیت رکھتا تھا۔

اس آپریشن کے پیچھے ایک پیچیدہ منصوبہ تھا جس میں مبینہ طور پر اسرائیلی ایجنٹس نے جعلی آن لائن اسٹورز، ویب پیجز اور پوسٹس تیار کیں تاکہ حزب اللہ کی سیکیورٹی چیکرز کو فریب دیا جا سکے۔

پیجر بم کا ڈیزائن

پیجر بیٹری میں دو مستطیل لیتھیم ۔آئن سیلز کے درمیان چھ گرام (پی ای ٹی این) پلاسٹک دھماکہ خیز مواد چھپایا گیا تھا۔ اس میں جلنے والی ایک پٹی بھی شامل کی گئی جو دھماکہ کرنے میں مدد دیتی تھی۔

اس پورے ڈھانچے کو ایک دھاتی خول میں بند کیا گیا تھا جو تقریباً ایک ماچس کے سائز کا تھا، اس کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں عام دھاتی ڈیٹونیٹر موجود نہیں تھا، جس کی وجہ سے یہ ایکسرے اسکینز میں بھی سامنے نہیں آسکا۔

حزب اللہ کی لاعلمی

حزب اللہ نے ماہ فروری میں مذکورہ پیجرز وصول کیے، ان پیجر بم کے ڈیزائن کا جائزہ لینے والے ماہرین نے وضاحت کی کہ معمول کی سیکیورٹی چیکنگ کے طریقہ کار کے مطابق انہیں اسکین کیا گیا مگر ان میں بظاہر کوئی غیر معمولی چیز سامنے نہیں آئی۔

تشویشناک بات یہ ہے کہ انہیں اس میں کوئی بھی مشکوک چیز بھی نہیں ملی۔ غالباً یہ آلات بیٹری کے اندر چنگاری پیدا کرنے کے لیے نصب کیے گئے تھے، جس سے دھماکہ خیز مواد پھٹ جاتا۔

پیجرز کی بیٹری میں موجود دھماکہ خیز مواد اور ڈیٹونیٹر کے غائب ہونے کی وجہ سے حزب اللہ کے ماہرین انہیں پہچاننے میں ناکام رہے، پیجرز کا دھماکہ اس وقت ہوا جب انہیں کوئی خفیہ پیغام موصول ہوا، جس کے بعد بہت سے لوگ زخمی اور جاں بحق ہوئے۔

حزب اللہ

پیجرز دھماکوں پر اسرائیل کا ردعمل

سیکورٹی ذرائع کے مطابق اس پیچیدہ آپریشن کے پیچھے مبینہ طور پر موساد کا ہاتھ تھا، تاہم اسرائیل نے سرکاری سطح پر اس واقعے سے متعلق تاحال کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

اس حوالے سے نہ تو اسرائیل کے وزیر اعظم کے دفتر اور نہ ہی لبنان کی وزارت اطلاعات یا حزب اللہ کے ترجمان نے اس معاملے پر کوئی حتمی تبصرہ کیا اور اسرائیل نے بھی مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

اس کے علاوہ مبینہ طور پر امریکی حکام کو بھی اس خفیہ آپریشن کے بارے میں پہلے سے کوئی علم نہیں تھا۔

جعلی مصنوعات اور ویب سائٹس

رپورٹ کے مطابق پیجرز کی بیٹریاں بظاہر عام لیتھیم آئن بیٹریوں جیسی لگتی تھیں لیکن ان کا ماڈل نمبر، ایل ون۔بی ٹی 783، مارکیٹ میں کہیں بھی دستیاب نہیں تھا، اسرائیلی ایجنٹس نے ایک مکمل جعلی پس منظر تیار کیا تاکہ حزب اللہ کو دھوکہ دیا جاسکے جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی رہا۔

پیجرز دھماکوں

پیجرز کی فرضی کہانی

رپورٹ کے مطابق اسرائیلی ایجنٹس نے ایک مکمل حکمت عملی مرتب کی۔ حزب اللہ اپنی خریداری کے طریقہ کار میں بہت محتاط ہے اور ایجنٹس نے اس بات کو یقینی بنایا کہ اگر حزب اللہ اس کی تحقیقات بھی کرتی ہے تو اسے کوئی شواہد نہ مل سکیں۔

گولڈ اپولو کمپنی کا کردار

رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق مبینہ طور پر اسرائیلی ایجنٹس نے حزب اللہ کو دھوکہ دینے کے لیے ایک جعلی ماڈل اے آر ۔ 924 پیجر کا استعمال کیا۔ یہ خاص طور پر ڈیزائن کیا گیا پیجر ایک مشہور تائیوانی کمپنی گولڈ اپولو کے برانڈ کے نام سے حزب اللہ کو فروخت کیا گیا تھا۔

 پیجرز تائیوان

پیجرز حملے کے ایک دن بعد ’گولڈ اپولو‘ کے چیئرمین شو چنگ کوانگ نے صحافیوں کو بتایا کہ تقریباً تین سال قبل ان کے سابق ملازم، ٹیریسا وو اور ان کے افسر جس کا نام ٹام تھا، نے لائسنس معاہدے کے حوالے سے بات چیت کی تھی۔

شو چنگ نے بتایا کہ انہیں ٹیریسا وو کے اعلیٰ افسر کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں تھیں لیکن پھر بھی انہوں نے انہیں اپنی پروڈکٹس کو ڈیزائن کرنے اور انہیں گولڈ اپولو کے تحت مارکیٹنگ کرنے کا حق دے دیا۔

چیئرمین نے بتایا کہ وہ اے آر۔924 سے متاثر نہیں ہوئے تھے لیکن پھر بھی اس کی تصاویر اور پروڈکٹ کی تفصیلات اپنی کمپنی کی ویب سائٹ پر شامل کر دیں، جس سے اسے پہچان اور ساکھ ملی۔ تاہم ان کی ویب سائٹ سے اے آر۔924 کو براہ راست خریدنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں تھا۔

شو نے مزید کہا کہ انہیں پیجرز کے مہلک ہونے یا حزب اللہ پر حملے کے خوفناک منصوبے کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا، تاہم انہوں نے اپنی کمپنی کو اس سازش کا شکار قرار دیا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں