ہفتہ, اکتوبر 5, 2024
اشتہار

ورلڈ کپ میں دھوم مچانے والے محمد شامی کی درد بھری کہانی!

اشتہار

حیرت انگیز

رواں ورلڈ کپ میں محمد شامی نے تین میچوں میں 14 وکٹیں لینے کے ساتھ میگا ایونٹ میں بھارت کے سب سے کامیاب بولر بن گئے ہیں لیکن اس کامیابی کے پیچھے ایک درد بھری کہانی ہے۔

رواں ورلڈ کپ میں تاخیر سے کھلائے جانے والے محمد شامی نے آتے ہی مخالف ٹیموں میں تباہی مچا دی اور صرف تین میچز میں 14 وکٹیں لینے کے ساتھ ورلڈ کپ میں بھارت کے سب سے کامیاب بولر بھی بن گئے لیکن کیا آپ جانتے ہیں اس کامیابی کے پیچھے ایک درد بھری کہانی ہے جس میں دکھوں کے ساتھ جدوجہد، عزم اور حوصلے کی داستان بھی رقم ہے۔

مغربی یو پی کے امروہہ سے تعلق رکھنے والے محمد سمیع ورلڈ کپ میں حالیہ کارکردگی کے بعد پورے بھارت کے ہیرو بن چکے ہیں اور اس کے لیے انہوں نے خود کو ثابت بھی کیا ہے، لیکن کامیابی کبھی تھالی میں سجا کر پیش نہیں کی جاتی اس کے پیچھے ایک طویل جدوجہد ہوتی ہے۔ محمد شامی کی داستان بھی جدوجہد اور حوصلے سے رقم ہے لیکن اس میں ایسے تکلیف دہ دکھ بھی ہیں جس کا شاید ہی دنیا کے کسی کرکٹر نے سامنا کیا ہو۔

- Advertisement -

بہت سے کھلاڑیوں نے اپنے کیریئر کی تشکیل میں مالی مشکلات کا سامنا کیا لیکن پھر اس سے نبرد آزما ہو کر کامیابی کی سیڑھی چڑھ گئے لین محمد شامی کی دکھ اور تکالیف اس سے بہت مختلف ہیں انہیں مشکل خاندانی حالات کے ساتھ سخت پروپیگنڈے کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

محمد شامی کے والد توصیف علی گاؤں کی کرکٹ میں بہت مقبول تھے، اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ یہ کھیل انہیں وراثت میں ملا جب توصیف کو کبھی بڑے پلیٹ فارم پر اپنی صلاحیتیں دکھانے کا موقع نہیں ملا تو انہوں نے یہ خواب اپنے بیٹے کی ذات سے وابستہ کر لیے اور وہ ایک دن شامی کو مراد آباد اسٹیڈیم میں کرکٹ کوچ بدر الدین کے پاس لے گئے۔ یہاں انہوں نے ایک ماہر کی نگرانی میں باؤلنگ کی پریکٹس شروع کی۔

بدر الدین نے محسوس کیا کہ انہوں نے جتنے بھی تیز بولر دیکھے ہیں شامی ان میں سب سے قابل ہیں اور وہ جلد ہی ہندوستانی قومی کرکٹ ٹیم میں شامل ہو جائیں گے لیکن کئی سال کے بعد بھی محمد شامی بھارتی کرکٹ ٹیم تو دور کی بات، یوپی کی رانجی ٹیم میں بھی جگہ نہ بنا سکے جس کی وجہ یوپی کرکٹ میں سیاست اور شامی کا سادہ پس منظر تھا۔

کوچ بدر الدین نے اپنے قریبی لوگوں کو محمد شامی کی صلاحیتوں سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ ایسی خطرناک بولنگ کرتے ہیں کہ وکٹیں توڑ دیتے ہیں۔

جب ناانصافی کا سلسلہ نہیں تھما تو ایک دن بدر الدین نے توصیف علی کو فون کیا اور صاف کہہ دیا کہ شامی یوپی کے لیے نہیں کھیل سکے گا، تمہیں اسے کہیں اور بھیجنا پڑے گا۔ توصیف احمد جو اپنے بیٹے کو کسی بھی قیمت پر کامیاب دیکھنا چاہتے تھے، کوچ کے مشورے پر بیٹے کو مغربی بنگال بھیج دیا۔ یہاں وہ ایک بار پھر ٹوٹ گئے کیونکہ وہ ایک عام مزدور کسان گھرانے سے تھے اور انہیں ایک انجان شہر میں کھانے اور رہائش کا انتظام کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

کولکتہ میں شامی کے پاس نہ چھت تھی اور نہ ہی زمین، یہاں انہوں نے موہن باغان کلب کے لیے کھیلنا شروع کیا۔ امروہہ میں والد تھے، مراد آباد میں بدر الدین ان کے سرپرست بنے اور کولکتہ میں ان کی ملاقات دیوداس سے ہوئی، انہوں نے اس لڑکے کی قابلیت پر رشک کرتے ہوئے شامی اپنے گھر میں رہنے کی جگہ دیا۔

شامی اپنی کارکردگی کی بدولت ایڈن گارڈنز پر حاوی ہونے لگے، پھر شامی نے اپنے وقت کے بہترین بلے باز اور بھارتی کپتان سارو گنگولی کو بولڈ کر دیا۔ گنگولی نے کوئی وقت ضائع نہیں کیا اور فوری طور پر سمیع کو بنگال رانجی ٹیم میں شامل کر لیا۔ اس کے بعد شامی ہندوستانی کرکٹ ٹیم میں آئے اور انہیں دنیا کے بہترین سیم بالر کے طور پر شناخت حاصل ہوئی۔

کیریئر میں آنے والی مشکلات کے ساتھ شامی کا خاندانی دکھوں نے بھی پیچھا کیے رکھا۔ دراصل، سمیع ایک مختلف کردار کے شخص ہیں، انہیں جتنا دبایا جاتا ہے وہ اتنا ہی ابھر جاتے ہیں۔ انہیں 2013 میں ہندوستانی کرکٹ ٹیم میں منتخب کیا گیا تھا اور اس کے بعد ان کے والد توصیف علی کا انتقال ہو گیا۔

شامی نے جس لڑکی حسین جہاں سے انہوں نے پورے خاندان کی مخالفت کے باوجود شادی کی اس نے ہی ان پر بے الزامات عائد کیے اور کیس ابھی عدالت میں ہے۔ اس تناؤ نے انہیں اتنا توڑ دیا کہ شامی نے تین بار زندگی ختم کرنے کا سوچا لیکن پھر حوصلہ پکڑا اور نئے طریقے سے زندگی جینے کا عزم کیا جس کے بعد انہوں نے کامیابی کی ایک داستان رقم کر دی۔

تاہم کرکٹ ماہرین آپ کو بتائیں گے کہ انتہائی مہلک سیم فاسٹ باؤلر ہونے اور بہترین اعداد وشمار کے باوجود ٹیم سلیکشن میں ان کے ساتھ مسلسل غیر منصفانہ سلوک کیا گیا۔ صرف ورلڈ کپ کی بات کریں تو 2015 میں انہوں نے 17 وکٹیں لیں، 2019 میں انہیں پہلے چار میچوں میں نہیں کھلایا گیا۔ اس کے بعد جب انہیں کھلایا گیا تو انہوں نے ہیٹ ٹرک کی اور چار میچوں میں 14 وکٹیں حاصل کیں۔ موجودہ 2023 کے ورلڈ کپ میں بھی انہیں ابتدائی چار میچوں میں بینچ پر رکھا گیا اور جب پانڈیا زخمی ہوئے تو انہیں موقع ملا۔ پھر انہوں نے صرف 3 میچوں میں 14 وکٹیں حاصل کر کے اپنا لوہا منوا دیا اور اب وہ ورلڈ کپ میں 45 وکٹیں لے کر بھارت کے سب سے کامیاب بولر بن چکے ہیں۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں