پاکستان کرکٹ ٹیم نے گزشتہ روز بنگلہ دیش سے پہلی بار ٹیسٹ میچ میں شکست کھائی۔ یہ قومی ٹیم کی ایک سال میں ’’پہلی بار‘‘ کی ڈبل ہیٹ ٹرک ہے۔ اپنے سے کمزور ٹیم کے خلاف ’’کنگ اور شاہین‘‘ جیسے ’’سپر اسٹارز‘‘ سے سجی ٹیم نے پنڈی اسٹیڈیم میں جو کارکردگی دکھائی، اس کو دیکھ کر اب تو شاید بدترین اور شرمناک جیسے الفاظ بھی شرما رہے اور اس کو اپنی بے عزتی تصور کر رہے ہوں۔ چند دن قبل تک ارشد ندیم کی کامیابی کو اپنا وژن بتانے والے اب اس ہولناک شکست کو کس کا وژن قرار دیں گے؟
کھیل کے میدان میں جب بھی دو ٹیمیں اترتی ہیں تو ایک کی جیت اور ایک کی ہار ہوتی ہے، اور ہارنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں، لیکن اگر اس ’’ہار‘‘ میں ’’وقار‘‘ ہو تو۔ لیکن اگر یہ ہار مستقل ہی گلے کا ہار بن جائے، تو پھر باعث تشویش ہے اور اب ایسا ہی کچھ پاکستان کرکٹ ٹیم کے ساتھ ہو رہا ہے، جس کی جیت پر جانے والی ٹرین نے اچانک ایسا ٹریک بدلا کہ پھر فتح کی ٹریک پر نہیں آ سکی ہے اور اس دوران کئی ہزیمت اور خفت کی داستانیں رقم ہوئی ہیں۔
بنگلہ دیش کے خلاف دو ٹیسٹ میچوں پر مشتمل سیریز آئی سی سی ٹیسٹ چیمپئن شپ کا حصہ ہے اور اس سیریز میں پاکستان کا مہمان ٹیم کو وائٹ واش کرنا قومی ٹیم کو پوائنٹ ٹیبل پر چھٹے سے تیسرے نمبر پر پہنچا دیتا، جس سے اس کے آئندہ برس آئی سی سی ٹیسٹ چیمپئن شپ کا فائنل کھیلنے کی راہ ہموار ہوتی، اور جب بنگلہ دیش کی ٹیم پاکستان آ رہی تھی تو سابق ریکارڈ دیکھتے ہوئے یہ ناممکن نہیں لگ رہا تھا، لیکن ہماری ٹیم مہمان کو کیا وائٹ واش کرتی، اس نے تو اچھے میزبان کا کردار ادا کرتے ہوئے غلطیوں پر غلطیاں کر کے ٹیسٹ میچ خود تشت میں سجا کر انہیں اس طرح پیش کیا کہ وائٹ واش کا خواب دیکھنے والی پاکستانی ٹیم کے سر پر خود کلین سوئپ ہونے کا خطرہ منڈلانے لگا ہے، جب کہ پہلے میچ کے نتیجے کے ساتھ ہی قومی ٹیم ٹیسٹ رینکنگ میں چھٹے سے آٹھویں نمبر پر چلی گئی ہے۔
پاکستان کرکٹ سے دلچسپی رکھنے والوں کو علم ہوگا کہ گزشتہ سال کے وسط تک قومی ٹیم اپنی درست سمت میں جا رہی اور فتوحات سمیت رہی تھی، لیکن پھر بورڈ میں تبدیلیوں کے ساتھ پسند اور نا پسند اور کپتانی کی بلا جواز دوڑ شروع کرانے نے ٹیم کو شکستوں کی پاتال میں جا پھینکا ہے۔ جو حالات چل رہے ہیں لگتا ہے کہ ٹیم میں ایک نہیں بلکہ بیک وقت ایک سے زائد کپتان ہیں جس پر تو اب اڑوس پڑوس کے ممالک بھی طنز کر رہے ہیں۔
دنیا بھر میں ٹیمیں ہوم ایڈوانٹیج کا فائدہ اٹھاتی ہیں لیکن ہمارے ہاں تو پچ ریڈ کرنا ہی کسی کو نہیں آتا. پنڈی ٹیسٹ سے قبل کہا گیا کہ پچ فاسٹ بولنگ کے لیے سازگار ہے اور اسی کو جواز بناتے ہوئے کوئی ریگولر اسپنر شامل نہیں کیا گیا، مگر بنگال ٹائیگرز کے اسپنرز نہ جانے کیسے اسی فاسٹ بولر فرینڈلی پچ پر کمال دکھاتے ہوئے آخری دن سات وکٹیں حاصل کر کے پاکستان کو چت کر دیتے ہیں۔ شاید وہ بنگال کا جادو ساتھ لے کر آئے ہیں، جو پنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں سر چڑھ کر بولا تب ہی تو شان مسعود نے دو روز تک وکٹ کا مزاج دیکھنے کے باوجود پہلی اننگ 448 رنز پر ڈکلیئر کر کے اپنے پاؤں پر خود کلہاڑا مارا اور بنگلہ دیش کو 500 رنز بنانے کا موقع دے کر محمد رضوان اور سعود شکیل کی محنت کر پانی پھیر ڈالا۔ ناقص حکمت عملی، خراب شاٹ سلیکشن، ڈراپ کیچز سب نے ہی اپنا اپنا حصہ بقدر جثہ اس تاریخی شکست میں ڈالا۔
بنگلہ دیش کے لیے یہ جیت تو اس لیے بھی تاریخی ہے کہ اس نے اپنی 23 سالہ ٹیسٹ کرکٹ تاریخ میں پہلی بار پاکستان کو اس فارمیٹ میں شکست دی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ جیت اس لیے بھی قابل قدر ہے کہ بنگلہ دیشی کرکٹرز جن حالات میں اپنا ملک چھوڑ کر پاکستان سیریز کھیلنے آئے کہ وہاں پورا ملک سیاسی افراتفری کے باعث جل رہا ہے۔ انارکی کی فضا میں وہ اپنے ملک میں ٹیسٹ سیریز کے لیے پریکٹس تک نہ کر سکے۔ پاکستان میں انٹرنیٹ سروس سست ہونے کے باعث انہیں اپنے اہل خانہ سے رابطوں میں بھی مشکلات تھیں، جو ان کے ملک کے دگرگوں حالات میں ان کے لیے پریشانی کا باعث تھا، جب کہ دوسری اننگ میں پاکستان کی بیٹنگ کو تباہ کرنے والے شکیب الحسن پر ایک روز قبل ہی ان کے ملک میں قتل کا مقدمہ بنا تھا۔ ان سب کے باوجود بنگلہ دیشی کرکٹرز نے پاکستانی کرکٹرز کی نسبت زیادہ حوصلہ مندی اور ذہنی مضبوطی کا مظاہرہ کیا اور پورا فوکس کرکٹ پر رکھا جس کا نتیجہ ان کی فتح کی صورت میں نکلا اور وہ حقیقی طور پر اس جیت کے حقدار ہیں۔
ادھر پاکستان کرکٹ کا یہ حال ہے کہ اسے اپنی سر زمین پر ٹیسٹ میچ جیتنے کا مزا چکھے ساڑھے تین سال ہو چکے ہیں جب کہ کارکردگی کا یہ حال ہے کہ میدانوں میں فتوحات سمیٹنے اور مثبت ریکارڈ بنانے کے بجائے وہ ایک سال میں ’’اپ سیٹ شکستوں یا پہلی بار‘‘ کی ڈبل ہیٹ ٹرک کر چکی ہے۔
گزشتہ سال جب بھارت میں ہونے والے ون ڈے ورلڈ کپ میں پاکستان نے افغانستان سے شکست کھائی تو یہ کرکٹ بے بی سے پہلی بار ہار تھی۔ پھر اسی ورلڈ کپ میں گرین شرٹس نے پانچ میچز ہارے اور ایسا ون ڈے ورلڈ کپ کی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ پاکستان نے میگا ایونٹ میں پانچ میچز ہارے ہوں۔
ورلڈ کپ کے بعد پاکستان ٹیم نیوزی لینڈ ٹی 20 سیریز کھیلنے گئی تو پانچ میچوں کی سیریز چار صفر سے ہاری اور کیویز کے خلاف ایسا بھی پہلی بار ہی ہوا۔
حالیہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں جب ہم پہلا انٹرنیشنل ٹورنامنٹ کھیلنے والی ٹیم امریکا کے خلاف سر فخر سے بلند کرتے ہوئے میدان میں اترے اور پھر ہار کے بعد سر جھکائے میدان سے باہر آئے تو یہ بھی پہلی بار ہی تھا، جب کہ ریکارڈ پانچ بار مختصر دورانیے کے ورلڈ کپ کا سیمی فائنل کھیلنے والی ٹیم اس بار پہلے مرحلے میں ہی ٹورنامنٹ سے باہر ہوئی، تو ایسا بھی پہلی بار ہی ہوا۔
جہاں کرکٹ کی تباہی میں کرکٹرز کی ناقص کارکردگی کارفرما ہے، وہیں پاکستان کرکٹ بورڈ کی غیر مستقل مزاجی اور شارٹ ٹرم فیصلے بھی ہیں۔ جس کا کام اسی کو ساجھے کا اصول دنیا بھر میں کارفرما ہے، لیکن پاکستان میں ہمیشہ اس کا الٹ ہوتا ہے اور کئی ادارے اور شعبے اس کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔ ہمارے ہاں کسی بھی ادارے کی سربراہی اور فیصلہ کن عہدہ اس شخصیت کو سیاسی اثر ورسوخ اور پسند نا پسند کی ایما پر دیا جاتا ہے جو اس فیلڈ کی الف ب سے بھی واقف نہیں ہوتا اور یہ کھیل مستقل مزاجی کے ساتھ ہمیشہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے ساتھ کھیلا جاتا ہے۔
جب رمیز راجا کے بطور چیئرمین پی سی بی رخصت ہونے کے بعد ن لیگ کی سابق ڈیڑھ سالہ حکومت نے نجم سیٹھی کو دوبارہ اس منصب پر بٹھایا، جنہوں نے کامیاب چلتی ٹرین کے ڈرائیور کی تبدیلی کا شوشا چھوڑ کر ساکت پانی میں ہلچل مچانے کے لیے پتھر ڈالا۔ چند ماہ بعد حکومتی اتحادی جماعت پی پی کی خواہش پر اس منصب پر ذکا اشرف کو دوبارہ لایا گیا، تو انہوں نے ورلڈ کپ کے دوران متنازع انٹرویوز اور ٹیم کی اندرونی باتیں افشا کر کے ایک نیا پنڈورا باکس کھولا اور ورلڈ کپ کی ناکامی کا ملبہ ڈالتے ہوئے بابر اعظم کو مستعفی ہونے پر مجبور اور شاہین شاہ کو ٹی ٹوئنٹی کا نیا کپتان بنایا، لیکن موجودہ چیئرمین محسن نقوی نے آتے ہی شاہین شاہ کو اس عہدے پر اپنی اہلیت ثابت کرنے کا موقع دیے بغیر پھر اپنی پسند سے بابر اعظم کو کپتان مقرر کیا لیکن ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں تاریخ کی شرمناک ترین شکست نے جب سارا پول کھول دیا تو پھر ٹیم میں جس طرح اختلافات کی خبریں زینت بنیں اس نے نوے کی دہائی کی کرکٹ کی یادیں تازہ کر دیں جب اسی طرح ٹیم میں بیک وقت چار پانچ کپتان کھیل رہے ہوتے تھے۔ اسی طرح آج بھی ٹیم میں بیک وقت قیادت کے چار پانچ خواہشمند پیدا کیے گئے اور اس کا نتیجہ آج ہم بنگلہ دیش سے شکست کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔
کرکٹ پاکستان کے نوجوانوں کا خواب اور کرکٹرز ہیرو ہیں۔ انہیں اس خواب کی بھیانک تعبیر نہ دی جائے اور نہ ہی ہیروز کو ہیرو سے ولن بنایا جائے۔ یہ ملک کو جوڑنے والا واحد کھیل ہے کہ جب کسی میدان میں پاکستانی ٹیم کھیل رہی ہوتی ہے تو اس وقت اسٹیڈیم میں پنجابی ہوتا ہے اور نہ ہی پٹھان، سندھی، بلوچی، مہاجر بھی نہیں ہوتا بلکہ صرف پاکستانی ہوتا ہے۔ تو قوم کو یکجا کرنے والے اس کھیل کو تباہی سے بچایا جائے۔
پی سی بی میں جو آتا ہے وہ ایک نیا فیصلہ کرتا ہے، جس سے یہ ادارہ ایک تجربہ گاہ اور کرکٹ، وہ مردہ تن بن کر رہ گیا ہے جس کو تجربات کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔ یہاں فیصلے ملک میں آنے والی سیاسی تبدیلیوں کے ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور یہی قوم کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتے کھیل کرکٹ کی تباہی کا سبب ہے لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ یہ گھناؤنا کھیل بند کیا جائے۔ پی سی بی کو اگر سیاسی من پسند کی بنیاد پر ہی چلانا ہے تو کم از کم کرکٹ کی بہتری کے لیے عملی طور پر کرکٹ بورڈ کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے جس میں ایک انتظامی حصہ بنا کر اسے حکومت وقت کی خواہشات کی تسکین کا باعث بنایا جائے جب کہ دوسرا حصہ کرکٹنگ سے متعلق معاملات پر ہو، جس میں شفاف ماضی رکھنے والے اور اعلیٰ معیار کے کرکٹ کیریئر رکھنے والے سابق کھلاڑیوں کو آگے لایا جائے اور ایسے نابغہ روزگار کرکٹرز ہمارے پاس کمی نہیں۔ تنقید کی پروا نہ کریں کہ مثبت تنقید ہی تعمیر کے راستے پر ڈالتی ہے اور کامیابی کے سوتے اسی سے پھوٹتے ہیں۔