خطّے میں امن اور باہمی تعاون کی فضا برقرار رکھنے کے لیے پاکستان کی کوششیں دنیا کے سامنے ہیں۔ بالخصوص ایٹمی طاقت بننے کے بعد پاکستان نے مختلف ادوارِ حکومت میں پڑوسی ممالک کے ساتھ اپنی خارجہ پالیسی اور سفارت کاری کے ذریعے اس حوالے سے جس سنجیدگی اور ذمہ داری سے فیصلے کیے ہیں، ان سے انکار نہیں کیا جاسکتا، لیکن پاکستان دنیا کو یہ بھی باور کرواتا رہا ہے کہ وہ اپنی قومی سلامتی، بقا اور اپنی خود مختاری کو مقدم رکھتا ہے اور اگر اس پر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی گئی تو دشمن کو منہ توڑ جواب دیا جائے گا اور افواجِ پاکستان ملک کی سرحدوں کے دفاع کے لیے تیار ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں جب بھارت نے دہشت گردی کے کسی واقعے کے بعد اپنی سیکیورٹی اور انٹیلیجینس کی ناکامی کو تسلیم کرنے کے بجائے اس کا الزام پاکستان کو دیا ہو۔ پہلگام واقعے کے بعد بھی یہی ہوا ہے۔ بھارت نہ صرف اس کا الزام پاکستان کے سر تھوپ رہا ہے بلکہ اس حملے کو بنیاد بنا کر جنگ کا ماحول پیدا کردیا ہے۔ بھارت کی الزام تراشیاں اور ریاستی سطح پر پاکستان مخالف پروپیگنڈا اس کے جنگی جنون کو ظاہر کرتی ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی دشمن نے عسکری برتری کے زعم اور بارود کے گھمنڈ میں پاکستان پر حملہ کیا، اسے شکست اور رسوائی کا منہ دیکھنا پڑا۔ زمانۂ جنگ میں قوم کے غیور بیٹے اور بیٹیاں بھی جذبۂ خدمت سے سرشار ہو رفاہِ عامّہ کے کاموں میں پیش پیش رہے ہیں۔ یہاں ہم اردو کے ممتاز ادیب شاہد احمد دہلوی کے جنگِ ستمبر کے موقع پر شایع ہونے والے ایک مضمون سے یہ اقتباس پیش کررہے ہیں۔ شاہد صاحب لکھتے ہیں:
پاکستانی خواتین جنگ کے زمانے میں اس قدر چاق و چوبند ہوگئیں کہ رفاہِ عام کے کاموں کے علاوہ انھوں نے شہری دفاع کی ٹریننگ لی، فوری امداد کی تربیت حاصل کی۔
رائفل اور پستول چلانے کی مشق کی۔ زخمیوں کی مرہم پٹّی کرنی سیکھی۔ نرسنگ کے لیے اسپتالوں میں جانے لگیں۔ ہر لڑکی اور عورت کے ہاتھ میں سلائیاں اور اُون نظر آنے لگا۔ فوجی بھائیوں کے لیے انھوں نے کئی کئی سوئیٹر اور موزے بُنے۔ اُن کے لیے چندہ جمع کیا۔ تحفے اکٹھے کر کے بھیجے۔ یہ بھی ایک معجزہ ہے کہ پاکستانی خواتین مردوں کے دوش بہ دوش کام کرنے لگیں۔
انھوں نے اپنا بناؤ سنگھار چھوڑ دیا۔ آرائش کی چیزیں خریدنی چھوڑ دیں اور جو بچت اس طرح ہوئی اسے دفاعی فنڈ میں دے دیا۔ مینا بازار سجائے گئے اور زنانہ مشاعرے کیے گئے۔ زنانہ کالجوں میں ڈرامے کیے گئے اور ان کی آمدنی کشمیر کے مہاجروں کے لیے بھیجی گئی۔