جمعہ, نومبر 1, 2024
اشتہار

کوپ 29 کیا ہے اور پاکستان کے لیے کیوں اہم ہے؟

اشتہار

حیرت انگیز

مجتبیٰ بیگ

کہنے کو تو یہ ایک کانفرنس ہوتی ہے مگر اِس میں ہونے والی سرگرمیاں کسی میلے سے کم نہیں ہوتیں۔ ہرسال ساری دنیا سے حکومتی، سول سوسائٹی، درس و تدریس، تحقیق، سائنسی علوم، صحافت اور تجارت سمیت مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے لوگ کسی ایک ملک کے بڑے شہر میں جمع ہوکر موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کی کوششوں کا جائزہ لیتے ہیں۔

دس دن تک روزانہ صبح سے شام تک کانفرنس، اس دوران چھوٹے چھوٹے کئی ذیلی اجلاس، کھانا پینا اور ساتھ ساتھ گپ شپ، گفت و شنید اور کانفرنس گاہ سے باہر پرجوش موسمیاتی کارکنوں کے موسمیاتی تبدیلی کے ذمہ داروں کے خلاف مظاہرے اور دھرنے جاری رہتے ہیں۔ چند ہزار لوگ اس میں حکومتی خرچے پر شامل ہوتے ہیں جبکہ کثیر تعداد اپنے نجی اداروں کی مالی معاونت سے اور ایک بڑی تعداد اپنے خرچے پر بھی اس میں شامل ہوتی ہے۔

کانفرنس ہال کے سبز پنڈال میں سول سوسائٹی کے نمائندے، صحافی، دنیا کی قدیم تہذیبوں کے پیروکار، ماہرین تعلیم، موسمیاتی و ماحولیاتی کارکنان اور مبصرین جبکہ نیلے پنڈال میں ہر قسم اور ہر سطح کے بابو لوگ یعنی حکومتی نمائندے، سرکاری اہلکار، سرکاری تیکنیکی ماہرین و نمائندے اور وہ سب لوگ جو کسی نہ کسی ملک کے حکومتی وفد کے ساتھ ہوں وہ سب بڑی شان کے ساتھ وہاں بیٹھے ہوتے ہیں۔

- Advertisement -

دونوں پنڈالوں میں بیٹھے لوگوں کا مقصد ایک یعنی موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام جبکہ راستہ الگ الگ ہوتا ہے۔ سبز پنڈال والے موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کے لیے کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ اقدامات کرنے کے حامی ہوتے ہیں جبکہ نیلے پنڈال میں بیٹھے لوگوں کی کوشش کسی کو ناراض کیے بغیر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کے اقدامات کرنا ہوتی ہے جو قدرے مشکل اور وقت طلب ہے۔

گزشتہ تیس سال میں کل اٹھائیس کانفرنسیں ہوچکی ہیں جبکہ انتیسویں کانفرنس اگلے ماہ کے دوسرے اور تیسرے ہفتے میں آذر بائیجان کے شہر باکو میں ہونے جارہی ہے۔ اسی کی دہائی کے آخر میں سائنسدانوں کی جانب موسمیاتی تبدیلی کے رسمی انکشاف کے بعد 1992 میں اقوام متحدہ کے تحت سارے ملکوں نے موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کا ایک تاریخی معاہدہ کیا تھا جسے یو این ایف سی سی (یونائٹیڈ نیشنز فریم ورک کنونشن فار کلائمیٹ چینج) کہتے ہیں جس پر عملدرآمد کے سیکریٹریٹ نے ہر سال موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کے جائزے کے لیے کانفرنس آف پارٹیز کرانے کا اعلان کیا تھا جو اب کوپ کے نام سے جانی جاتی ہے۔

سب سے پہلی کوپ 1995 میں جرمنی کے شہر برلن میں ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے مستقل ہر سال یہ کانفرنس ہورہی ہے جس میں 2019 اور 2020 میں کویڈ کی وجہ سے تعطل آیا تھا۔ سب سے پہلی کوپ میں بمشکل بارہ سو لوگ شریک ہوئے تھے جبکہ گزشتہ سال ہونے والی کوپ 28 میں 80 ہزار سے زائد افراد کی شرکت ریکارڈ تھی اور قیاس ہے کہ اس سال یہ تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر جائے گی۔

1997 میں جاپان کے شہر کیوٹو میں ہونے والی کوپ 3 اس لیے اہم ہے کیونکہ اس میں ترقی یافتہ ممالک کے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کے لیے کیوٹو پروٹوکول نام سے معاہدہ کیا گیا تھا جبکہ 2009 میں کوپن ہیگن میں ہونے والی کوپ 15 میں ترقی یافتہ ملکوں کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے متاثرہ ترقی پذیر ممالک کی امداد کے لیے 2020 تک 100 ارب ڈالر کا موسمیاتی مالیات کا فنڈ قائم کریں جس کا ہدف بڑی مشکلوں سے 2022 تک پورا ہو پایا تھا، اس میں بھی ترسیلات سے زیادہ مالی وعدوں اور عزائم کی اکثریت ہے۔

سال 2015 میں کوپ 21 میں پیرس معاہدہ ہوا تھا جو موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اس میں عزائم اور وعدوں کے بجائے باقاعدہ اہداف رکھے گئے ہیں جن کے مطابق دنیا کے تمام ممالک کو فوسل فیول سے قابل تجدید توانائی کی طرف منتقلی کے ذریعے 2030 تک گرین ہاؤس گیسوں کا عالمی اخراج نصف تک لانا ہے اور 2050 تک مکمل طور پر قابل تجدید توانائی کی طرف منتقل ہو کر عالمی اخراج صفر تک پہنچا دینا ہے تاکہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو ترجیحاً 1.5 ڈگری تک روکا جاسکے۔

دو سال قبل مصر کے شہر شرم الشیخ میں ہونے والی کوپ 27 میں معمول کی موسمیاتی امداد کے فنڈ کے علاوہ موسمیاتی آفات سے بچاؤ کے لیے ہنگامی امداد کا فنڈ بھی قائم کرنے کا اعلان ہوا تھا تاکہ ترقی پذیر اور غریب ممالک میں موسمیاتی آفات سے ہونے والی تباہیوں کا فوری طور پر ازالہ کیا جاسکے۔ اس فنڈ کو لاس اینڈ ڈیمیج فنڈ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے قیام میں پاکستان اور بنگلہ دیش نے کلید ی کردار اد کیا تھا۔ تاہم یہ فنڈ مکمل طور پر اب تک فعال نہیں ہوسکا ہے حالانکہ دبئی میں ہونے والی کوپ 28 میں بھی اس پر کافی بات ہوئی تھی۔

اگلے ماہ باکو میں ہونے والی کوپ 29 میں 100 ارب ڈالر کے موسمیاتی فنانس کے فنڈ کو سالانہ بنیادوں پر فعال کرنے، گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی تلافی کے سرٹیفکیٹس جنہیں کاربن کریڈٹ کہتے ہیں اس کی تجارت کو پوری دنیا میں پھیلانے، لاس اینڈ ڈمیج فنڈ کو فوری طور پر فعال کرنے کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلی سے موافقت کے اقدامات کی ہر طرح کی سپورٹ کرنے جیسے اہم نکات پر پیش رفت ہونے کا بھی امکان ہے۔

کوپ 29 پاکستان کے لیے بھی دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح یکساں اہم ہے کیونکہ پاکستان بھی اُن ممالک میں شامل ہے جن کا گلوبل وارمنگ کی ذمہ دار گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں حصہ تو ایک فیصد سے بھی کم ہے جبکہ موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں اس کا پانچواں نمبر ہے۔ 2022 کے سیلابوں میں سندھ میں ہونیوالے جانی و مالی نقصانات 3 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہیں جن کا ایک معمولی حصہ بھی پاکستان کو نہیں ملا ہے کیونکہ لاس اینڈ ڈمیج فنڈ میں اب تک چند ملین ڈالر سے زائد رقم نہیں آسکی ہے۔ اسی طرح موسمیاتی فنانس کی مد میں بھی اب تک موسمیاتی موافقت کے آٹھ پروجیکٹ پاکستان کو ملے ہیں جن کی مالیت پچیس کروڑ ڈالر ہے اور جو سب کی سب گرانٹ نہیں بلکہ بڑا حصہ آسان شرائط کے قرضوں پر مشتمل ہے۔

کاربن کریڈٹ کے ذریعے ایسے کاموں کی تلافی کی جاتی ہے جن سے گرین ہاؤس گیسیں لازمی نکلتی ہیں اس لیے تلافی کے طور پر کاربن جذب کرنے کے ایسے کاموں کی مالی سپورٹ کی جاتی ہے جو کہیں اور کیے جارہے ہوں اس طرح کاربن جذ ب کرنے والے کو اپنے کام کا معاوضہ مل جاتا ہے اور کریڈٹ خریدنے والے کے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی تلافی ہوجاتی ہے۔ کاربن کریڈٹ کی خرید وفروخت کی مارکیٹ بھی اب تک پوری دنیا میں پھیل نہیں سکی ہے جس کا کوپ 29 میں واضح لائحہ عمل طے کرنا ہوگا تاکہ کاربن کے اخراج کی تلافی کرنے والے اس بڑے ذریعے کو فروغ دیا جاسکے۔ پاکستان میں اگر سنجیدگی سے کاربن مارکیٹ قائم اور اسے پیشہ وارانہ انداز سے چلایا جائے تو اس میں 2 ارب ڈالر سالانہ تک کمانے کی گنجائش ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کے دو بڑے ذریعے تخفیف اور موافقت ہیں۔ تخفیف کا مطلب ہے فوسل فیول کا استعمال ختم یا کم کرکے قابل تجدید توانائی کی طرف منتقلی جبکہ موافقت کا مطلب ہے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے مقابلے کے لیے اپنی صلاحیت بڑھانا اور اپنے انفرااسٹرکچر، صنعت، زراعت اور آمدو رفت کے وسائل کو پائیداراور مستحکم بنانا تاکہ موسمیاتی آفات سے کم سے کم نقصان ہو۔ اب تک دنیا میں موسمیاتی تخفیف کے لیے تو معقول اقدامات کیے جارہے ہیں تاہم موافقت کے نتائج جانچنے کا کوئی پیمانہ نہ ہونے کے باعث موافقت کے منصوبوں کی سپورٹ کم کی جارہی ہے۔ اس مسئلے کا حل نکالنے کے لیے بھی کوپ 29 میں عملی اقدامات تجویز کیے جانے کی امید ہے۔ پاکستان کو سندھ اور بلوچستان میں خاص طور پر موسمیاتی تبدیلی سے موافقت قائم کرنے کے لیے 10 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔

الغرض پاکستان سمیت موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ تمام ممالک کی نظریں کوپ 29 پر لگی ہوئی ہیں تاکہ اگر وہ اپنے ایجنڈا میں شامل نصف نکات پر بھی کسی واضح لائحہ عمل کا اعلان کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو موسمیاتی تبدیلی کے ذمہ دار ترقی یافتہ ممالک کے پاس موسمیاتی فنانس اور لاس اینڈ ڈمیج فنڈ میں اپنا پورا حصہ ڈالنے سے بچنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہے گا اور اسی طرح کاربن مارکیٹ کے پھیلاؤ اور موسمیاتی موافقت کے منصوبوں کی سپورٹ کے لیے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کو قابل پیمائش اہداف دینے ہوں گے تاکہ مل جل کر دنیا کے شمالی اور جنوبی حصے سیارہ زمین کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچا سکیں۔

(ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلیاں مجتبیٰ بیگ کا موضوع ہیں جس پر وہ مضامین لکھتے رہتے ہیں، ماحولیاتی انسائیکلوپیڈیا کے عنوان سے ان کی ایک تصنیف اور بطور مترجم دو کتابیں شایع ہوچکی ہیں)

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں