سڑک سے گزر رہا تھا کہ کنارے پر ایک بوڑھے جھریوں زدہ وجود کو سکڑے سمٹے دیکھا۔ یہ کوئی انوکھی بات نہ ہوتی، اگر اس کمزور وجود نے اپنے ایک ہاتھ میں گیند، بلا اور دوسرے ہاتھ میں پاکستانی پرچم نہ تھاما ہوتا۔ اس حلیہ نے تجسس کو بھڑکایا اور صحافتی رگ پھڑکی تو ہم اس نحیف و نزار وجود کے پاس جا پہنچے اور علیک سلیک کر کے کچھ بات کرنے کی کوشش کی۔
چہرے کے نقوش بتا رہے تھے کہ یہ عمارت کبھی پرشکوہ بھی رہی ہوگی۔ تاہم زمانے کی چیرہ دستیوں اور حالات کے جبر نے خوبصورتی کو گہنا دیا ہے۔ قریب کھڑے ہو کر مزید جاننے کی کوشش کی تو ایسا لگا کہ یہ وجود جو بہت ستم رسیدہ دکھائی دے رہا تھا کوئی تازہ غم اس کے اندر نوحہ کناں تھا اور یہ غم اس کی آنکھوں کے ساتھ پورے ہی وجود سے جھلک رہا تھا۔ آنکھیں جھکی تھیں اور ایسا لگ رہا تھا کہ اس میں کسی سے نظریں ملانے کی ہمت نہیں۔ یہ حالت دیکھ کر میں اس وجود کو زبردستی قریبی چائے کے ہوٹل پر لے گیا، تاکہ سکون کے ماحول میں اس کے کچھ اوسان بحال کیے جائیں اور حال احوال دریافت کیا جائے۔ ہوٹل پہنچنے کے بعد اس نے ایک کونے میں سر چھپا کر بیٹھنے کو ترجیح دی۔ کئی بار بات کا ارادہ کیا لیکن سامنے گہری خاموشی دیکھ کر خاموش رہا۔ بالآخر صبر نے جواب دیا تو سکوت توڑ کر تعارف حاصل کرنا چاہا اور پہلا سوال یہ پوچھا کہ آپ کون ہیں اور یہ کیا حلیہ بنا رکھا ہے؟
پہلے تو وہ وجود اپنا تعارف کرانے سے ایسے جھجھکا، جیسے وہ اپنا تعارف کرانے پر شرمسار ہو لیکن ہمارے بے حد اصرار پر بالآخر بول پڑا کہ میں ’’پاکستان کرکٹ‘‘ ہوں۔ یہ سن کر حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔ مگر جلد ہی خود کو سنبھال کر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کرکٹ سے منفرد انٹرویو کرنے کی ٹھانی۔
میں نے بطور صحافی تعارف کراتے ہوئے انتہائی کمزور وجود کے ساتھ بیٹھی پاکستان کرکٹ سے انٹرویو کی خواہش ظاہر کی۔ تھوڑے سے اعتراض کے بعد وہ راضی ہوئی، اور ساتھ ہی احسان جتایا کہ مجھ سے اپنا نام بڑا بنانے والے آج پیسوں پر انٹرویو دے رہے ہیں، مگر تم بھی کیا یاد کرو گے کہ میں تمہیں صرف چائے کی ایک پیالی پر ہی انٹرویو دے رہی ہوں۔
انٹرویو کی نشست شروع ہوتے ہی میں نے پہلا پرتجسس سوال داغا کہ آپ جو آج بہت کمزور اور دکھی دکھائی دے رہی ہیں کیا ہمیشہ سے یہی حال ہے؟
نہیں بیٹا میرا ماضی تو بہت خوبصورت اور روشن تھا۔ خوشیوں کا چمن تھا جس میں کئی پھول کھلے اور دنیا کو اپنی خوشبو سے مہکایا، لیکن آنے والے نا اہل مالیوں اور امر بیل فطرت رکھنے والوں نے میرے اس گلستان کو اب کسی اجڑے چمن کی صورت کر دیا ہے۔ جہاں قومی ٹیم نے بڑی فتوحات سے اقوام عالم میں میرا سر فخر سے بلند بھی کیا اور کچھ کرکٹرز نے اپنی حرکتوں سے دنیا کے سامنے مجھے شرمسار بھی کیا۔
آپ کی عمر کیا ہے، کچھ اپنے ماضی کے بارے میں بتائیں؟
میری عمر اس وطن عزیز سے چند سال ہی چھوٹی ہے۔ پاکستان 1947 میں معرض وجود میں آیا۔ متحدہ ہندوستان میں برطانوی کالونی ہونے کی وجہ سے وراثت میں کرکٹ ملی تھی۔ اس لیے صرف 5 سال بعد ہی 1952 میں مجھے باقاعدہ ٹیسٹ کرکٹ ملک کا درجہ مل گیا۔
ٹیسٹ کرکٹ کا درجہ ملنے کے بعد سب سے پہلے کس ملک کا دورہ کیا؟
ٹیسٹ کرکٹ ملک کا درجہ ملنے کے بعد سب سے پہلا دورہ بھی کپتان عبدالحفیظ کاردار کی قیادت میں روایتی حریف بھارت کا کیا اور اکتوبر 1952 میں پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا۔
آپ کو مختلف ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے؟
ہاں بالکل درست ہے۔ مجھے قومی پرچم اور جرسی کی مناسبت سے گرین شرٹس بھی کہا جاتا ہے، مین ان گرین بھی پکارا جاتا ہے۔ میں شاہین بھی ہوں لیکن حالیہ کارکردگی نے مجھے کرگس بنا دیا ہے جب کہ لوگ مجھے طنزیہ انداز میں دنیا کی واحد نا قابل بھروسہ ٹیم بھی کہتے ہیں۔
میرا سینہ اگر آج زخموں سے چور ہے لیکن ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ میرے دامن میں آنے والوں نے میرے ذریعے مال و دولت کمایا لیکن کچھ ایسے بھی نکلے جنہوں نے پیسہ کی خاطر میری عزت اور وقار کا سودا کر دیا۔
آپ کی اب تک کی کارکردگی کیا رہی ہے؟
ٹیسٹ نیشن کا درجہ ملنے کے بعد سے اب تک میں 10 ممالک کے خلاف مجموعی طور پر 465 ٹیسٹ میچز کھیل چکی ہوں اور ان میں سے 151 جیتے۔ 148 ہارے۔ 166 ڈرا ہوئے۔
جب ایک روزہ کرکٹ آئی تو اولین دن سے اس کا حصہ بنی اور اب تک 19 ممالک سے پنچہ آزمائی کرتے ہوئے 987 میچز کھیل کر 520 میچوں میں کامیابی سمیٹی اور 437 میں ناکامی ملی۔
دو دہائی قبل جب ٹی 20 کرکٹ کا دور شروع ہوا تب سے اب تک ورلڈ الیون اور 19 ملکوں کی ٹیموں سے 258 میچز کھیل کر 145 جیتے اور 102 ہارے۔
13 ون ڈے ورلڈ کپ میں 1992 کا ٹائٹل جیتا۔ دو فائنل اور چار سیمی فائنل کھیلنے کا اعزاز پایا۔
ٹی 20 ورلڈ کپ کے ریکارڈ پانچ سیمی فائنل اور دو فائنل کھیلے 2009 میں چیمپئن بنا۔ 2016 میں ٹیسٹ کرکٹ کی نمبر ون ٹیم کا اعزاز پایا۔ 2017 میں پہلی بار سرفراز کی قیادت میں چیمپئنز ٹرافی بھی اٹھائی۔
گزشتہ کئی سالوں سے پے در پے شکستوں کے باوجود آج بھی میری جیت کا تناسب شکستوں سے زیادہ ہے، جو اس بات کا گواہ ہے کہ میرا ماضی خوشیوں سے بھرا اور بہت روشن تھا۔
پاکستان کرکٹ کی سب سے بڑی خوشی کون سی ہے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ 1992 میں جب پاکستان پہلی بار ون ڈے کرکٹ کا عالمی چیمپئن بنا تو وہی سب سے بڑی خوشی تھی۔ اس ٹورنامنٹ میں اس وقت کے کپتان عمران خان نے جس طرح ٹوٹی، بکھری اور شکستوں کے بھنور میں پھنسی ٹیم کو عرش سے اٹھا کر فرش پر پہنچایا اور جس طرح میلبرن کرکٹ گراؤنڈ میں خوبصورت کرسٹل ٹرافی اٹھائی۔ وہ منظر 33 سال گزرنے کے باوجود دل ودماغ سے محو نہیں ہوتا۔
اس کے علاوہ پاکستان نے شارجہ میں 1986 کے آسٹریلیشیا کپ میں روایتی حریف بھارت کو فائنل میں ہرا کر پاکستان کو پہلی بار کثیر الملکی ٹورنامنٹ میں ٹرافی جتوائی۔ میانداد کا چیتن شرما کی آخری گیند پر مارا گیا چھکا آج بھی بھارتیوں کے سینے پر مونگ دل رہا ہے۔ کئی سال کے ٹرافی کے قحط کے بعد پاکستان ٹیم ایک بار لارڈز کے میدان میں سرخرو ہوئی اور 2009 میں یونس خان کی قیادت میں ٹی 20 ورلڈ کپ جیت کر دہشتگردی سے خوفزدہ پاکستانی عوام کے چہرے پر خوشیاں بکھیریں۔ پھر 2016 میں ٹیسٹ نمبر ون ٹیم کا اعزاز اور ایک سال بعد ہی سرفراز احمد نے وہ کر دکھایا جو کسی اور کپتان نے نہیں کیا تھا۔ روایتی حریف بھارت کو چیمپئنز ٹرافی کے فائنل میں پچھاڑ کر پاکستان کو پہلی بار یہ اعزاز بھی دلایا اور اس کے ساتھ آئی سی سی کے تمام فارمیٹس کی فتوحات پاکستان کے نام ہوئیں۔
آپ کے لیے سب سے مشکل وقت کون سا تھا؟
بیٹا دکھ سکھ تو ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں۔ کبھی سکھ کی چھاؤں آتی ہے تو کبھی دکھ کی تمازت پورے جسم اور روح کو جلا دیتی ہے۔ لیکن میرے لیے جہاں خوشیوں کے بہت سارے در کھلے وہیں دکھ کے موسم بھی بہت اور طویل رہے۔ دکھوں کا مداوا کرنے کے بجائے ہر بار عارضی مرہم پٹی کر کے سدھار کی کوشش کی گئی لیکن مستقل مزاجی نہ ہونے کے باعث لگتا ہے کہ یہ زخم ناسور بن چکا ہے۔
پاکستان کرکٹ میں دھڑے بندی کب شروع ہوئی؟
ٹیم میں کپتانی کی دوڑ تو 80 کی دہائی سے شروع ہو چکی تھی لیکن 90 کی دہائی میں اس نے تقویت پائی اور دھڑے بندی بھی ہوئی لیکن بات کرو دکھ کی تو جس نے روح تک کو مسل ڈالا وہ 1999 کا ورلڈ کپ تھا۔ اس پورے ٹورنامنٹ میں ٹیم ناقابل شکست رہتے ہوئے بڑی بڑی ٹیموں کو پچھاڑ گئی لیکن حیران کن طور پر نو آموز بنگلہ دیش سے ہار گئی۔ اس وقت کے کپتان وسیم اکرم نے کہا کہ ہم اپنے بھائی سے ہارے لیکن اس کے جواب میں بنگلہ دیش کی متعصب وزیراعظم حسینہ واجد نے جلتی پر تیلی کا کام کرتے ہوئے اس کو 1971 (سقوط ڈھاکا) کا بدلہ قرار دیا۔ پھر اس کے فائنل میں جس بری طرح شکست ہوئی وہ 26 سال گزرنے کے باوجود اب تک لوگوں کے ذہنوں کے پردے پر محفوظ ہے۔
اس سے قبل 1994 میں پہلی بار پاکستان ٹیم پر میچ فکسنگ کا الزام لگا تھا۔ اس کی تحقیقات ہوئیں اور جب جسٹس قیوم کمیشن کی رپورٹ آئی تو اس نے تہلکہ بھی مچایا۔ لیکن ملبہ صرف دو کھلاڑیوں سلیم ملک اور عطا الرحمان پر ڈال کر تاحیات پابندی لگا دی گئی۔ وسیم اکرم کو فوری کپتانی سے ہٹانے کی سفارش کی گئی اس کے ساتھ کچھ کھلاڑیوں کو اہم عہدوں پر تعینات نہ کرنے کی بھی سفارش کی گئی مگر بعد میں ان میں سے ہی کچھ کپتان اور ریٹائرمنٹ کے بعد پی سی بی کے عہدوں پر فائز ہوئے۔
2006 میں دورہ انگلینڈ میں آخری ٹیسٹ میچ کو فورفیٹ کر کے انگلش ٹیم کو ایوارڈ کرنا بھی کرکٹ کا انوکھا واقعہ رہا اور اس میں بھی پاکستان ہی شریک تھا۔ وہ تو بعد میں پی سی بی کی کوششوں سے آئی سی سی نے اس میچ کو ڈرا قرار دیا۔
2007 کے ون ڈے ورلڈ کپ میں پہلے ہی راؤنڈ میں ٹورنامنٹ سے اخراج سے زیادہ تکلیف دہ اس وقت کے ٹیم کوچ باب وولمر کی پراسرار موت تھی۔ اس معاملے میں پاکستانی ٹیم پر شک اور تفتیش نے دنیا میں میرا امیج خراب کیا۔
2010 میں دورہ انگلینڈ میں اسپاٹ فکسنگ ایسا کیس ہے جس نے میرے شکستہ وجود کو مزید کمزور کیا اور ایسا لگا کہ میرے چہرے پر کالک مل دی گئی ہو۔ اس جرم کی پاداش میں پہلی بار پاکستانی کرکٹرز کو جیل کی سزا بھی بھگتنی پڑی۔ اس وقت کے کپتان اور سارے تماشے کے کرتا دھرتا سلمان بٹ اور محمد آصف کو تاحیات پابندی جب کہ نوجوان محمد عامر کو سات سال پابندی کی سزا ملی۔ اس واقعہ نے پاکستان کو ایک بڑے فاسٹ بولر سے محروم کر دیا گوکہ محمد عامر کی واپسی ہوئی لیکن وہ پہلے کی طرح اپنا جادو نہ جگا سکا۔
سوال: پاکستان ٹیم نے کیوں برسوں تک اپنے میچز نیوٹرل مقامات پر کھیلے؟
بیٹا یہ بھی دہشتگردی کا شاخسانہ تھا۔ 2009 میں سری لنکا کی ٹیم پاکستان کے دورے پر تھی کہ لاہور میں مہمان ٹیم پر دہشتگرد حملے کے بعد ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ رک گئی۔ غیر ملکی ٹیموں نے پاکستان کا رخ کرنا چھوڑ دیا اور پاکستان نے اسی وجہ سے اپنے میچز کئی سال تک نیوٹرل مقامات پر کھیلے۔ یہ بہت شرمناک اور اذیت ناک دور تھا۔ اسی کی آڑ لے کر پاکستان سے خائف بھارت نے 2011 میں ون ڈے ورلڈ کپ کی مشترکہ میزبانی بھی مجھ سے چھین لی۔
2015 میں سیکیورٹی اداروں کی کوششوں اور امن قائم ہونے کے بعد غیر ملکی ٹیموں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا اور اب سوائے بھارت کے تمام ٹیمیں پاکستان کا دورہ کر چکی ہیں۔ پاکستان نے 29 سال بعد رواں برس آئی سی سی کے کسی ایونٹ چیمپئنز ٹرافی کا کامیاب انعقاد بھی کیا۔ پاکستان سپر لیگ نے بھی میرا مثبت امیج دنیا کو دیا اور آج دنیا کے کئی ممالک کے نامور کرکٹرز پی ایس ایل کھیلتے ہیں۔
جب آپ کو اتنی خوشیاں ملیں تو پھر اتنا زود رنج کیوں ہو رہی ہیں؟
بیٹا تم ہی بتاؤ کہ وہ ٹیم جس نے آئی سی سی کے تمام ٹورنامنٹس (ون ڈے ورلڈ کپ، ٹی 20 ورلڈ کپ، چیمپئنز ٹرافی) جیتنے کے ساتھ ٹیسٹ نمبر ون ٹیم کا اعزاز بھی پا رکھا ہو۔ دو بار ایشین چیمپئن کا تاج بھی سر پر سجایا ہو۔ اس ٹیم کی آج حالت یہ ہوچکی ہو کہ وہ ڈیڑھ سال کے دوران ایشیا کپ، ون ڈے ورلڈ کپ، ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ اور اپنی میزبانی میں کھیلی گئی چیمپئنز ٹرافی میں پہلے ہی راؤنڈ سے باہر ہوچکی ہو۔ بنگلہ دیش جیسی کمزور ٹیم بھی مجھے میرے گھر میں وائٹ واش کر کے چلی جائے تو اس پر خوشی کے بھنگڑے ڈالوں یا ماتم کناں ہوں۔
آپ کی نظر میں اس کارکردگی کی وجہ کیا ہے؟
بیٹا میں نے آج تک یہی دیکھا ہے کہ مستحکم کامیابی مستقل مزاجی سے ملتی ہے۔ لیکن ہمارے ملک کے کسی ادارے میں مستقل مزاجی نہیں تو کرکٹ میں کیسے ہو سکتی ہے۔ ہر حکومت کی تبدیلی کے ساتھ کرکٹ بورڈ میں چھیڑ چھاڑ، نئی پالیسیاں، نئے چہرے اور ترجیحات سے معاملات بگڑتے ہیں۔
میں زیادہ پرانی بات نہیں کرتی۔ صرف اس سوا ڈیڑھ سال کے عرصہ کو دیکھ لو۔ حکومتوں کی تبدیلی کے ساتھ پی سی بی سربراہ، عہدیدار، ٹیم منیجمنٹ حتیٰ کہ کئی بار کپتان تبدیل ہوگئے۔ ہر تبدیلی پر بڑے دعوے اور میجر آپریشن کی بات کی گئی لیکن نتیجہ وہی دھاک کے تین پات نکلتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیم کو عارضی کامیابیاں تو ملتی ہیں مگر مستقل مزاجی نہیں آتی۔
آپ کو 73 سال کا تجربہ ہے تو آپ کی نظر میں اس کا حل کیا ہے؟
بیٹا میں کیا اور میری رائے کیا؟ ہونا تو وہی ہے جو اس ملک کے بڑے اور کرکٹ کے کرتا دھرتا چاہیں گے، مگر جب زبان پر آئی ہے تو کہہ چلوں کہ پاکستان کرکٹ کی ترقی کے لیے حق اور راست گوئی کی راہ اپناتے ہوئے بے رحمانہ احتساب کیا جائے لیکن اس میں صرف کھلاڑیوں کو ہی نہیں بلکہ اس میں فیصلہ سازوں کو بھی شامل کیا جائے۔ پرچی کلچر ختم کر کے باصلاحیت کھلاڑیوں کو آگے لایا جائے، ساتھ ہی مستقل مزاجی سے ٹیم اور منیجمنٹ منتخب کر کے اس کو وقت دیا جائے تو یہی ٹیم پھر سے قوم کی امنگوں پر پوری اترے گی اور میری عمر رسیدگی کا بھرم قائم رکھے گی۔
آپ کی خواہش کیا ہے؟
کرکٹ واحد کھیل ہے جو لسانی اور فرقہ ورانہ تقسیم میں بٹے لوگوں کو ایک قوم میں بدلتی ہے خاص طور پر جب پاک بھارت میچ ہو تو قومی جذبہ عروج پر ہوتا ہے۔ قوم کا اتحاد اسی کھیل کی ترقی سے بھی جڑا ہے۔ میں ایک بار پھر اپنی ٹیم میں محمد برادران، حفیظ کاردار، عمران خان، جاوید میانداد، یونس خان، شاہد آفریدی، سرفراز احمد جیسے بڑے نام دیکھنا چاہتی ہوں جن کا مطمح نظر پیسہ نہیں بلکہ پاکستان اور سبز ہلالی پرچم کی سر بلندی ہوتا تھا۔
یہ پاکستان کرکٹ کے وہ درخشاں ستارے ہیں جن کے بغیر پاکستان کرکٹ کی تابناک تاریخ ادھوری رہے گی۔ انہوں نے پاکستان کو بڑا ٹائٹل جتوایا لیکن خود پر کبھی کرپشن کا ایک داغ نہیں لگنے دیا۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ خود کو منوانے اور کامیابی کے لیے جذبے کےساتھ ایمانداری بھی ضروری ہے۔