اشتہار

یومِ پاکستان: ایک بچّے کی کہانی جو مسلم لیگ کا کارکن تھا

اشتہار

حیرت انگیز

23 مارچ پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم دن ہے جب 1940ء میں قرارداد پاکستان منظور کی گئی تھی جسے ہم قرارداد لاہور بھی کہتے ہیں۔ اس دن کو ہم یومِ پاکستان کے نام سے ہر سال مناتے ہیں۔ قرار داد پاکستان کی بنیاد پر مسلم لیگ نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے جداگانہ وطن کے حصول کی تحریک شروع کی تھی۔

یومِ پاکستان کی مناسبت سے یہ کہانی خاص طور پر والدین اور اساتذہ بچوں کو سنا سکتے ہیں جس سے انھیں اس دن کی اہمیت اور تاریخی جدوجہد سے آگاہی حاصل ہوگی۔ اس کہانی کی مصنف شائستہ زرؔیں ہیں۔

بچّہ: مسلم لیگ کے سرگرم کارکن عبدالستار مظہری

- Advertisement -

آغا جان: کیا ارادے ہیں بچّو؟ میرے کمرے میں کیوں ڈیرا ڈالے بیٹھے ہو؟

نصر: بہت ہی معصوم ارادے ہیں آغا جان! بس ایک جلسے کا آنکھوں دیکھا حال سننا ہے آپ سے۔

آغا جان: کیوں نہیں، مگر کون سے جلسے کا؟ ہم نے تو بہت سارے جلسوں اور جلوسوں میں شرکت کی ہے۔

عمر: جس جلسے میں قرار داد پاکستان پیش کی گئی تھی۔ ابو بتا رہے تھے آپ نے اُس میں شرکت کی تھی۔ ہم اس کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔

آغا جان: برسوں بیت گئے لیکن آج بھی یوں لگتا ہے جیسے یہ کل کی بات ہو۔ میں بچّہ مسلم لیگ میں شامل تھا اور برصغیر کے دیگرمسلمانوں کی طرح نہ صرف آزادی کے خواب دیکھ رہا تھا بلکہ بساط بھر آزادی کی جدوجہد میں حصّہ بھی لے رہا تھا۔ اُس دن تو ہمارے جوش و خروش اور خوشی کا عالم ہی اور تھا جب وائسرائے ہند لارڈ لنلتھگو(Lord linlithgow) نے اپنی ایک تقریرمیں آل انڈیا مسلم لیگ کو مسلمانوں کی نمائندہ جماعت تسلیم کرلیا۔ مسلم لیگ کی اتنی بڑی کامیابی پر ہم خوشی سے پُھولے نہیں سمارہے تھے۔

عمر: آغا جان! کون سی تاریخ تھی؟

آغا جان: 10 اکتوبر 1939ء

نصر: اور پھر اچانک 23 مارچ 1940ء کو جلسے کی قرارداد پیش کر کے قائد اعظم نے وائسرائے کو حیران کر دیا۔

آغا جان: ہرگز نہیں، کیونکہ مسلمان ایک بہادر قوم ہے۔ 6 فروری 1940ء کو ایک ملاقات میں قائداعظم نے وائسرائے ہند کو بتا دیا تھا کہ 23 مارچ 1940ء کو لاہور میں منعقد ہونے والے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں ہم علیحدہ وطن کا مطالبہ کریں گے۔ اس کے بعد قائد اعظم نے میرٹھ میں ایک اجلاس منعقد کیا جس میں مسلم لیگی راہ نماؤں نے سوچ بچار اور باہمی گفتگو کے بعد فیصلہ کیا کہ ایک کمیٹی مقرر کی جائے جس میں تقسیم ہند کے بارے میں تمام تفصیلات کا جائزہ لیا جائے گا، یوں اس سلسلے میں کمیٹی کا قیام عمل میں آیا۔

ردا: کمیٹی کے ارکین میں کون کون شامل تھا؟

آغا جان: نواب زادہ لیاقت علی خان، سر سکندر حیات، خواجہ ناظم الدّین، سرعبداللہ ہارون، نواب محمد اسمٰعیل خان، عبدالمتین چودھری، سردار اورنگزیب خان، سید عبد العزیز وغیرہ شامل تھے۔ بہت غور و فکر کے بعد کمیٹی نے ایک رپورٹ ترتیب دی جسے 23 مارچ کے اجلاس میں پیش کیا گیا۔ یہ اجلاس آل انڈیا مسلم لیگ کا ستائیسواں اجلاس تھا جو 22 سے 24 مارچ تک جاری رہا۔ پہلا اجلاس 22 مارچ کو لاہور میں ہوا۔ اجلاس میں تقریباً 25 ہزار افراد نے شرکت کی۔ ہندوستان کے مختلف حصوں کے نمائندے ان میں شامل تھے۔ اجلاس کی صدارت قائد اعظم نے کی تھی۔ اور اجلاس کی کاروائی کا آغاز سر شاہنواز نے کیا تھا۔ اور آپ نے وضاحت کر دی تھی کہ ”ہندو اور مسلمان میں اس کے علاوہ اور کوئی قدر مشترک نہیں کہ وہ ایک ملک میں آباد ہیں، تمام قوم کو محمد علی جناح کی قیادت پر اعتماد ہے۔ اس موقع پرقائد اعظم نے برملا کہا۔”ہندؤوں اور مسلمانوں کے درمیان کوئی چیز ایک جیسی نہیں ہے اور وہ دو مختلف واضح تہذیبوں کے وارث ہیں۔ چنانچہ واحد حل یہ ہے کہ ہندوستان کو مسلم انڈیا اور ہندو انڈیا میں تقسیم کردیا جائے۔“

مسلم لیگ کا دوسرا عام اجلاس 23 مارچ کو ہُوا جس میں 35 ہزار افراد نے شرکت کی اور اس اجلاس میں قرارداد پیش کی گئی۔ قائد اعظم کی خواہش پر بنگال کے وزیراعلیٰ مولوی فضل الحق نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ”آئین پر ایک مکمل نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ 1935ء کے ایکٹ میں وفاق کی جو اسکیم دی گئی ہے وہ کسی کے لیے بھی قابل قبول نہیں ہے۔ یہ اسکیم مسلمانوں کو مرکز میں نہ صرف ایک دائمی اقلیت میں تبدیل کر دے گی بلکہ مسلم اکثریتی صوبوں میں صوبائی خود مختاری منسوخ کر دے گی۔ مسلمان ہر ایسے آئین کو ناقابل عمل بنا دیں گے جو اُن کی مرضی و منشاء کے مطابق نہ ہو۔“

رکن مرکزی قانون ساز اسمبلی مولانا ظفر علی خان نے قرار داد کی حمایت کا اعلان کرتے ہُوئے کہا کہ یہ بات قابلِ اطمینان ہو گی اگر یہ کہا جائے کہ آج کے دن سے شمال مغرب اور شمال مشرق کے مسلمانوں نے مکمل آزادی کا اعلان کردیا ہے۔

نصر: آج کل تو کوئی جلسہ فائرنگ اور فساد کے بغیر ہوتا ہی نہیں وہ تو بہت پُر امن جلسہ ہو گا۔

آغا جان: اُن دنوں مسلمانوں کی اکثریت قائد اعظم کے ساتھ تھی۔ اجلاس شروع ہونے سے کچھ دیر پہلے خاکساروں کی فائرنگ سے بے چینی پھیل گئی تھی جس پر قائد اعظم نے نہایت سمجھداری اور ذہانت سے قابو پالیا۔

حرا: آخری اجلاس میں کتنے افراد شریک تھے؟

آغا جان: 35 ہزار افراد شریک تھے۔ اجلاس کے آغاز پر آگرہ کے سید ذاکر علی نے وہ مرکزی قرارداد پیش کی جس پر گزشتہ اجلاس میں گفتگو کی گئی تھی۔ یہ قرارداد نہایت جوش و خروش کے ساتھ متفقہ طور پر منظور کر لی گئی تھی۔
عمر: آغا جان! جب قائد اعظم نے اتنے بڑے مجمع کو منتشر ہونے سے بچایا تو اُن کے ساتھی تو بہت خوش ہوں گے؟

آغا جان: کیوں نہیں بیٹا! مسلم لیگ کے آخری اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے نواب بہادر یارجنگ نے قائد اعظم کو مبارکباد دی تھی کہ اُنہوں نے خاکسار مسئلے کو نہایت عقلمندی اور سوجھ بوجھ سے حل کیا۔ قائداعظم کو بھی اس شان دار کام یابی کی بے حد خوشی تھی آپ نے اجلاس کے آخر میں کہا، ”مسلمانوں نے دنیا کے سامنے اپنے نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا ہے، دشمن کی چالیں ناکام ہو گئیں، مسلمانوں نے بالآخر اپنی منزل کا تعین کر لیا ہے اور موجودہ اجلاس ہندوستان کی تاریخ میں سنگ میل ثابت ہوگا۔“

ردا: آغا جان! اتنے بڑے اجلاس کے انتظام میں مسئلہ نہیں ہوا؟

آغا جان: تقسیم سے قبل برصغیر کے مسلمانوں کا اتحاد مثالی تھا، مسلم لیگی راہ نماؤں نے باہمی اتفاق سے منٹو پارک کے میدان کا انتخاب اجلاس کے لیے کیا۔ اُس زمانے میں یہ میدان کُشتیوں کے لیے مخصوص تھا حکومت نے جلسے کی اجازت دینے سے انکار کردیا تھا کہ چند روز قبل سکھوں کے اجتماع نے اس کا حلیہ خراب کردیا اب مزید خراب ہو جائے گا۔ مسلم لیگی راہ نماؤں کے دباؤ ڈالنے پر جلسے کی مشروط اجازت دی کہ جلسے کے منتظمین پانچ ہزار روپے بطور ضمانت داخل کریں تاکہ نقصان کی صورت میں اس کی تلافی کی جا سکے۔ اور یہ منتظم کے لیے ممکن نہ تھا، اس کا حل یہ نکالا کہ ہم خیال مسلم لیگی افسروں سے رابطہ کیا یوں اس سلسلے میں چھوٹ مل گئی۔

حرا: آغا جان! اس زمانے میں برصغیر کے مسلمان معاشی اعتبار سے بہت خوش حال نہیں تھے اتنی بڑی رقم کا انتظام کیسے ہوا؟

آغا جان: بڑوں کے ساتھ بچوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، بچہ مسلم لیگیوں کے لیے تو یہ عید کا سماں تھا ریڑھیوں پر فروخت ہونے والی سستی اشیاء پر قیمتوں کی چٹیں لگادی گئی تھیں، اس سے پہلے نواب کالا باغ نے ایک ہزار کی رقم مسلم لیگ کو دی۔ اور ساتھ ہی یہ پیغام بھیجا کہ اگر کوئی صاحب اس سے زیادہ رقم دیں گے تو وہ اتنی ہی رقم اور دیں گے۔ نواب سر شاہنواز خان نے اپنے اثر و رسوخ سے کام لے کرفوری اخراجات کے لیے 6000 روپے دیے، مجلس استقبالیہ نے رکنیت فیس 50 روپے مقرر کی، اس سے خاصی رقم جمع ہو گئی۔ ایک اندازے کے مطابق جلسے کے لیے 20 ہزار روپے کی رقم جمع ہو گئی تھی۔

عمر: (حیرت سے) 20 ہزار میں جلسے کے انتظامات ہوگئے تھے؟

آغا جان: جلسے کا انتظامات پر تقریباً پونے گیارہ ہزار روپے خرچ ہوئے تھے۔

حرا: باقی رقم کا کیا ہوا آغا جان؟

آغا جان: باقی ماندہ رقم آل انڈیا مسلم لیگ کے خزانے میں جمع کردی گئی تھی۔ تم میں سے کس کو معلوم ہے کہ قرارداد پاکستان میں کیے جانے والے مطالبے کے اصل الفاظ کیا تھے؟

ردا: آغا جان! میں بتاؤں گی۔ وہ علاقے جہاں مسلم اکثریت میں ہیں وہاں مسلم ریاستیں قائم کر دی جائیں۔“

آغا جان: لیکن بیٹا یہ جواب صد فی صد درست نہیں ہے۔ چونکہ میں خود اس جلسے میں موجود تھا اس لیے مجھے علم ہے کہ لفظ ”ریاست“استعمال ہوا تھا۔ ریاستیں تو ٹائپ کی غلطی تھی، قرارداد پاکستان میں صرف ایک پاکستان کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

نصر: (جوش و مسرت سے) قائداعظم نے درست کہا تھا، واقعی قرارداد پاکستان تو پاکستان کی تاریخ میں سنگِ میل ثابت ہوئی۔

حرا: آغا جان ماضی کی یادیں تازہ کرنا آپ کو کیسا لگا؟

آغا جان: بہت اچھا لگا بیٹی۔ ہم نے بڑی جدوجہد اور قربانیوں کے بعد آزاد وطن حاصل کیا ہے۔ میرے بچو! تم ہمارے وارث بھی اور امین بھی ہو۔ تم سے بس اتنی سی درخواست ہے کہ ہمارے خوابوں کو پائمال نہ کرنا، اس پاک سر زمین کی حفاظت فرض سمجھ کر کرنا، پاکستان ہمارے اسلاف کے خواابوں کی تعبیر اور جذبوں کا امین ہے۔ ہمیں پاکستان کی موجودہ نسل سے بہت سی اچھی توقعات ہیں۔

نصر: آغا جان ہم پاکستان کے وارث اور امین ہی نہیں محافظ بھی ہیں۔

آغا جان: شاباش میرے بچو! ہم نے جو دیا جلایا ہے اس کی روشنی کبھی ماند نہ پڑنے دینا۔ پاکستان میں اُجالا بکھیر دینا۔ تم سے اور تمہاری نسل سے مجھے یہی کہنا ہے کہ

ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کر
اس ملک کو رکھنا میرے بچوں سنبھال کر

ردا: آغا جان ہم آپ سے وعدہ کرتے ہیں کہ ہم پاکستان کے وفادار رہیں گے، اس کے چپے چپے کی حفاظت کریں گے۔

آغا جان: ان شاء اللہ میرے بچو! تم پاکستان کے پاسبان ضرور بنو گے۔

(بحوالہ: قرارداد پاکستان، تاریخ و تجزیہ : خواجہ رضی حیدر)

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں