بدھ, دسمبر 4, 2024
اشتہار

کتنی لاشیں، کتنے زخمی… سچ کیا ہے؟

اشتہار

حیرت انگیز

تحریر:‌ سدرہ ایاز

پاکستان میں‌ اس وقت صرف "سیاست” ہورہی ہے۔ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف ملک کے کروڑوں عوام کو یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ ان کی مخالف جماعت ہی دراصل ملک کی ترقی، اور عوام کی خوش حالی کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ یہ سیاسی کھیل کب تک جاری رہے گا، کچھ معلوم نہیں‌۔ لیکن یہ طے ہے کہ اس کھینچا تانی اور سیاسی جماعتوں کی لڑائی میں عوام بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔

ایک جماعت کہتی ہے کہ عوام کی مشکلات کا سبب حکم رانوں کی غلط پالیسیاں اور اقدامات ہیں جب کہ دوسری جماعت اقتدار سے باہر بیٹھے ہوئے سیاست دانوں کو پرتشدد مظاہروں، احتجاج اور قانون شکنی کا مرتکب قرار دے کر عوام دشمن ثابت کرنا چاہتی ہے۔ ملک آئی ایم ایف کے قرضوں کے بوجھ تلے دبتا جارہا ہے اور ملکی معیشت سنبھل کر نہیں دے رہی۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ کہ عوام کو مزید ٹیکس دینا ہوگا۔ امراء اور مراعات یافتہ طبقہ تو ظاہر ہے اس سے متاثر نہیں ہوگا۔

- Advertisement -

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے گزشتہ ہفتے اپنے قائد کی رہائی کے لیے احتجاج کی کال دی تھی جس کے بعد حکومت کی جانب سے اسلام آباد میں رکاوٹیں اور ملک کے دیگر شہروں میں بھی سیکیورٹی اہل کاروں کی بھارتی نفری تعینات کردی گئی تاکہ پی ٹی آئی کے کارکنوں اور لیڈر کے متوالوں کا راستہ روکا جاسکے۔ اس کے باوجود مظاہرین اسلام آباد پہنچ گئے اور خوب دنگل ہوا۔ اس عرصہ میں ملک بھر میں انٹرنیٹ سروس تعطل کا شکار رہی اور آن لائن کاروباری سرگرمیاں، وہ لوگ جو آن لائن دفتری کام کرتے ہیں یا فری لانسر کے طور پر کچھ کماتے ہیں، مالی طور پر نقصان اٹھانے پر مجبور ہوئے۔ معلوم ہوا کہ احتجاج کے روز رات گئے مظاہرین کو سیکیورٹی اہل کاروں کی جانب سے شدید شیلنگ کا سامنا کرنا پڑا۔ فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں اور پھر ہلاکتوں کی اطلاعات سامنے آنے لگیں۔ مجھے تو یہ بھی سمجھ نہیں آرہا کہ اگر دھرنوں، احتجاجی مظاہروں کی وجہ سے ملک کے کسی بھی شہر کی سڑکیں‌ بند ہوتی ہیں تو ان مظاہرین کا راستہ روکنے اور مخالفین کو کچلنے کے لیے حکومت کی جانب سے رکاوٹیں کھڑی کرنے اور پولیس کو میدان میں اتارنے سے بھی عوام کو کون سا سکھ ملتا ہے؟

خیر، اسلام آباد میں اس روز کیا کچھ ہوا، عوام کی اکثریت کو اس کی حقیقت معلوم نہیں یا وہ یہ جاننے میں ناکام ہورہے ہیں، کیوں کہ سوشل میڈیا کے اس دور میں سچ اور جھوٹ، صحیح اور غلط میں تمیز کرنا آسان نہیں رہا جب کہ حالات کچھ ایسے ہیں کہ ملکی ذرائع ابلاغ یا تو حقائق سامنے لانے سے قاصر ہے یا پھر ‘مکمل رپورٹنگ’ سے خود کو دور رکھا ہوا ہے، مگر اس وقت ملک بھر میں موضوعِ بحث صرف اور صرف وہ ہلاکتیں ہیں جو اس احتجاجی مظاہرے کے دوران ہوئیں۔ کتنے افراد جان سے گئے اور کتنے زخمی ہیں، اس بارے میں سوشل میڈیا پر پوسٹیں گردش میں ہیں، لیکن سننے میں آیا کہ تحریکِ انصاف کے مختلف راہ نماؤں نے دو درجن سے لے کر 280 تک ہلاکتوں اور سیکڑوں کارکنوں کے زخمی ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ حکومت کی بات کریں تو اس کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی اہل کاروں کی جانب سے گولی چلائی ہی نہیں گئی۔ یہ جھوٹے الزامات ہیں، اور پاکستان تحریک انصاف ایک مرتبہ پھر پراپیگنڈہ کرتے ہوئے عوام کی ہم دردی سمیٹنا چاہتی ہے۔ حکومت اور پی ٹی آئی کی مخالف جماعتوں کا کہنا ہے کہ اگر اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئی ہیں تو جنازے کہاں اٹھے اور تدفین کہاں‌ کی گئی ہے؟

حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں میں سے کون صحیح ہے، کس کی بات درست ہے، کس نے جھوٹ اور پراپیگنڈے کا سہارا لیا ہے، کون غلط ہے…. یہ بحیثیت پاکستانی، ایک شہری اور ایک ووٹر کے میرا مسئلہ تو ہے، لیکن کیا کوئی اس سچ کو جھٹلا سکتا ہے کہ ہم پاکستانی گزشتہ سات دہائیوں سے اس ملک پر مسلط سیاسی خاندانوں اور ان کے اقتدار کی ہوس کے ہاتھوں قبر میں نہیں اترتے رہے ہیں؟ مجھ جیسے عام لوگ جو روزگار، تعلیم و صحت، امن، ترقی اور خوش حالی کا خواب دیکھتے ہوئے بڑے ہوگئے ہیں، یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمیں کسی نہ کسی سیاسی جماعت نے اقتدار ملنے کے بعد اس بری طرح نظرانداز کیا کہ ہم میں سے کئی جان سے بھی چلے گئے۔ ان حکومتی ادوار میں منہگائی، غربت، بدامنی، علاج معالجہ کی سہولیات اور پینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی، پیچیدہ اور ناکارہ عدالتی نظام کی وجہ سے زیادتی اور ناانصافی، بدعنوانی، لوٹ کھسوٹ اور تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود روزگار نہ ملنے سے ہم میں سے کئی لوگ مارے گئے۔ اب حکومت کا اصرار ہے کہ پی ٹی آئی کا درجنوں مظاہرین کی ہلاکت کا دعویٰ جھوٹ اور بدنیتی پر مبنی ہے، اور شاید ایسا ہی ہو، لیکن کیا ایک عام آدمی جو کسی سیاسی جماعت کا کارکن نہیں، کسی مظاہرے میں شریک نہیں ہوتا اور صرف ایک ایسا ووٹر ہے جو صرف حالات کو دیکھتے ہوئے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرتا ہے، وہ اِس حکومت میں شامل اُن سیاست دانوں کی بات کیا سنے جو پہلے بھی اقتدار میں اپنی پالیسیوں سے ملک کی اکثریت یعنی غریب اور متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے عوام کو خودکشی پر مجبور کرتے رہے ہیں؟ مان لیا کہ اُس روز ایسا کچھ نہیں ہوا اور سیاسی جماعت کا بڑی تعداد ہلاکتوں کا دعویٰ‌ غلط ہے، مگر سچ یہ ہے کہ عام آدمی تو روز ہی مَر رہا ہے اور میڈیا اسے رپورٹ بھی کرتا ہے۔ لیکن حکومت یا کوئی سیاسی جماعت اسے اہمیت نہیں دیتی۔ حزبِ اختلاف کی کوئی جماعت ایک عام آدمی کی موت کا الزام حکومت پر عائد نہیں کرتی اور حکومت بھی اس طرح حقائق سامنے لانے اور سچائی ثابت کرنے پر نہیں تل جاتی بلکہ منہگائی، بدامنی، لوٹ مار اور اس طرح کے حالات میں کسی کا قبر میں اتر جانا تو معمول کی بات ہے۔ یہ نہ تو قتل ہے اور نہ ہی کسی جماعت کا کوئی سیاسی لیڈر یا حکومت اس کی ذمہ دار ہے۔ روزانہ غربت، مہنگائی، کسی لٹیرے اور ڈکیت کے ہاتھوں‌ موت کے منہ میں چلے جانا تو عوام کا مقدر ہے۔ حکومت اس میں کیا کرسکتی ہے؟

(یہ تحریر/ بلاگ مصنّف کے ذاتی خیالات اور رائے پر مبنی ہے جس کا ادارے کی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں)

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں