تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

بے روزگاری: کیا کرنا چاہیے؟

آج کل ہر طالبِ علم کا بنیادی مقصد ڈگر ی کا حصول ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اس طرح اپنے مستقبل کو بہتر بناسکتا ہے، لیکن ہم دیکھتے ہیں‌ کہ تعلیم یافتہ اور ڈگریاں‌ اٹھائے ہوئے نوجوانوں کو یا تو نوکری نہیں مل رہی یا پھر وہ بہت کم تنخواہ حاصل کرپاتے ہیں اور مایوس نظر آتے ہیں۔

ہمارے ملک میں نظامِ‌ تعلیم اور سرکاری سطح پر اس شعبے کی زبوں حالی کا موضوع بہت پرانا ہے۔ نامی گرامی اور سینئر اساتذہ، ماہرینِ تعلیم سمیت ملک کی بیدار مغز شخصیات نے بارہا حکومتوں اور اربابِ اختیار سے اس حوالے سے سنجیدہ اور ٹھوس اقدامات کرنے کی گزارش کرتے ہوئے اپنی تجاویز اور خدمات پیش کی ہیں، لیکن آج بھی ہم دہرے تعلیمی نظام کے ساتھ سرکاری اسکولوں کی ابتری کی وجہ سے اپنے مستقبل کو داؤ پر لگائے ہوئے ہیں۔

ایک طرف سرکاری تعلیمی اداروں سے نکلنے والے نوجوان ہیں جن کی قابلیت پر شبہ کیا جاتا ہے اور دوسری طرف نجی اداروں سے سند یافتگان ہیں جنھیں‌ بھاری فیس دے کر تعلیمی مدّت پوری کرنے کے باوجود نوکریاں نہیں مل رہیں۔ دوسری طرف روایتی، رسمی یا نصابی تعلیم کے ساتھ ملک میں ٹیکنیکل ایجوکیشن یا فنی تعلیم کے ادارے بھی موجود ہیں، لیکن دیکھا گیا ہے کہ فنی تعلیم میں والدین کم ہی دل چسپی لیتے ہیں۔ خواہ امیر ہو یا مڈل کلاس اور غریب گھرانا، اپنی مالی استطاعت کے مطابق وہ اپنے بچّے کو کسی بھی اسکول میں عمومی تعلیم ہی دلوانا چاہتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج بڑی تعداد یا تو قابلیت سے محروم ہے یا پھر بے روزگار ہے۔

کل کی طرح موجودہ دور میں‌ بھی ہنر کا حاصل کرنا بہت ضروری ہے اور آج کل ڈیجیٹل دور میں فنی تعلیم کی مختلف شکلیں یا ذرایع روزگار کا بڑا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ ہنر مند نوجوان اپنی روزی روٹی کے ساتھ ملک کی معاشی ترقی میں‌ بھی اپنا حصّہ ڈال سکتا ہے، لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق فنی تعلیم کی شرح صرف 4 سے 6 فی صد ہے۔ اس کے برعکس ترقی یافتہ ممالک میں اس جانب بھرپور توجہ دی جارہی ہے۔

ہمارے یہاں طلبا و طالبات کو چند پرانے اور عام پیشوں کے بارے میں‌ آگاہی ہوتی ہے جب کہ موجودہ دور میں‌ ایسے سیکڑوں پیشے اور ان کی شکلیں سامنے آچکی ہیں، جنھیں فنی تعلیم کی بدولت اپنا کر کام یابی حاصل کی جاسکتی ہے۔

پاکستان کی آبادی کا بڑا حصّہ نوجوانوں پر مشتمل ہے جو مہنگی تعلیم اور نجی اداروں سے ڈگریاں حاصل نہیں‌ کرسکتے جب کہ سرکاری اداروں میں انھیں وہ سہولیات اور آسانیاں‌ میسر نہیں جو ان میں نصاب اور اس سے ہٹ کر قابلیت پیدا کرسکیں۔ ایسے میں عام مضامین میں سند حاصل کرنا یا کامرس، سماجی علوم، اور سائنس وغیرہ کی عام ڈگریاں لے کر وہ مایوس ہوتے ہیں جب کہ ماہرین کے مطابق کوئی ہنر سیکھ کر نوجوان روزگار کے بہتر مواقع حاصل کرسکتے ہیں۔

سرکاری سطح پر ملک میں موجود تیکنیکی یا فنی تعلیم کے اداروں میں مختلف کورسز کروانے کے علاوہ چار سالہ ڈ گری پروگرام تک نوجوان تیکنیکی مہارتیں حاصل کرکے خود کوئی کام، کاروبار شروع کرسکتے ہیں اور کسی معروف کمپنی یا مینوفیکچرنگ فرم میں بھی نوکری مل سکتی ہے۔

آج کل فنی تعلیم کے لیے تھری ڈی ڈیزائننگ، فیشن ڈیزائننگ، الیکٹریکل اپلائنسز، موبائل ریپئرنگ اور سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ جیسے کورسز عام ہیں جس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ والدین اور خود آج کے نوجوان کو چاہیے کہ وہ فنی تعلیم کی افادیت اور اہمیت کو سمجھتے ہوئے اپنے حالات کو بہتر بنانے اور خود کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی کوشش کرے۔ ٹیکنیکل ڈپلوما یا کوئی بھی پیشہ ورانہ ڈگری حاصل کرکے نوجوان معقول آمدنی کو ممکن بنا سکتے ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ہنر یا پیشہ ورانہ تعلیم کی اہمیت کو سمجھیں اور اپنے بچّوں کو اس جانب راغب کریں تاکہ وہ ناقص تعلیم یا مہنگی تعلیم کے حصول میں ناکامی یا پھر ڈگری یافتہ ہونے کے باوجود بے روزگاری کی وجہ سے مایوس نہ ہوں اور انفرادی اور اجتماعی ترقی کے سفر میں آگے بڑھ سکیں۔

(ماہرِ فنی تعلیم محمد سلیم انصاری کے قلم سے)

Comments

- Advertisement -