پاکستان میں 8 فروری کو ہونے والے انتخابات بالغ رائے دہی کی بنیاد پر بارہویں انتخابات تھے، کیا یہ انتخابات معاشی اور سیاسی مسائل کے شکار پاکستان کو مستحکم کرنے میں مدد گار ثابت ہوں گے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب کسی دانشور، سیاست دان، ماہر معاشیات سمیت کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔
پاکستان گزشتہ کئی سالوں سے مسلسل معاشی و سیاسی و مسائل کا شکار رہا ہے اور ملک کا بیرونی قرضہ 27 بلین ڈالرز اور مقامی قرضہ 60 ہزار ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔ ان حالات میں 8 فروری کو ہونے والے انتخابات کیا اس ملک کی خوش حالی اور ترقی میں معاون ثابت ہو سکیں گے؟ اس سوال کا جواب شاید نیوٹن کے پاس بھی نہیں ہوگا!
پاکستان میں جمہوری عمل کے نام پر انتخابات تو بہ ظاہر وقتاً فوقتاً ہوتے رہے ہیں، مگر متنازع۔ دوسری جانب ملک غلط پالیسیوں اور دیگر اَن دیکھے عوامل کی بنا پر کئی دہائیوں سے ان گنت مسائل کی دلدل میں مسلسل دھنستا جا رہا ہے، اس صورت حال میں ایک عام شہری انتخابات کے عمل سے کیسے کسی خوش گوار تبدیلی کی توقع رکھ سکتا ہے؟
عوام کا ایک بہت بڑا طبقہ اور معاشی و سیاسی ماہرین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ انتخابات حکومتی چہروں کی تبدیلی تو ہو سکتی ہے مگر اس سے مسائل کے حل میں کوئی جامع تبدیلی کی کوئی توقع کرنا بظاہر غیر فطری ہوگا، مگر اس کے ساتھ دنیا میں بہ ظاہر جمہوریت کے علاوہ ایسا کوئی نظام معرض وجود میں نہیں آیا، جو جمہوریت کا نعم للبدل ثابت ہو سکے۔
عوام انتخابات کے ذریعے جمہوری نظام، منتخب نمائندوں اور حکومت کو جواب دہ ٹھہرانے کا حق استعمال کرتے ہیں، مگر کیا وجہ ہے کہ پاکستان اپنی عمر کے 76 سال گزارنے کے باوجود بھی نہ صرف لاتعداد سیاسی مسائل کا شکار ہے، بلکہ اس کے مسائل میں مسلسل اضافہ ہی دیکھنے میں آ رہا ہے؟ ماہرین اس کی سب سے بڑی وجہ پالسیوں کا عدم تسلسل اور حکومت چلانے کے نت نئے نظام قرار دیتے ہیں۔ ہمارے پڑوس میں ممالک کے لوگوں کے حالات زندگی پاکستان سے مختلف نہیں، مگر وہاں ترقی کی واحد وجہ جمہوری اور کسی ایک نظام کا تسلسل ہے۔
نوجوان طبقہ اس ملک کا تقریبآ 70 فی صد ہے، جو اَن گنت مسائل کی وجہ سے اپنے مستقبل سے مایوس نظر آتا ہے، پاکستان میں جاری سنگین معاشی مسائل سے سب سے زیادہ غریب اور مڈل کلاس کی روزمرہ زندگی متاثر ہوئی ہے، نہ صرف مڈل کلاس کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے، بلکہ شرح غربت میں بھی تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اپنے چیلنجوں پر قابو پانے اور خوش حال مستقبل کی طرف گامزن ہونے کے لیے نہ صرف شفاف انتخابات بلکہ تمام اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے ملک کے بہترین مفاد میں مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔