اتوار, جنوری 5, 2025
اشتہار

تقسیم کے بعد پاکستان سے الحاق کرنے والی ریاستیں

اشتہار

حیرت انگیز

1857ء کی جنگ آزادی اور ہندوستان کی تقسیم تک برصغیر میں جہاں‌ سیاست داں، دانش ور اور بااثر سماجی شخصیات دن رات تحریکِ‌ آزادی میں اپنا کردار ادا کرتے نظر آئے، وہیں‌ قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں اکابرین نے اس وقت کی اسلامی ریاستوں کے سربراہوں اور نوابین کو بھی قائل کیا اور انھیں مسلمانوں کی الگ مملکت کے حصول کی جدوجہد میں شامل کیا۔

یہ ایک تاریخی اور اہم موضوع ہے جس پر کئی کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور ہندوستانی اہل قلم شخصیات کے علاوہ انگریز مؤرخین اور دوسرے غیر ملکی محققین نے بھی اس پر بہت کچھ لکھا ہے۔ 14اگست 1947ء کو پاکستان معرض وجود میں آیا۔ لیکن تقسیم ہند کے لیے آزادئ ہند ایکٹ 1947ء متعارف کروایا گیا تھا جس کے تحت تقسیم کے معاملات طے ہونے تھے۔ اس وقت ہندوستان میں 562 شاہی ریاستیں تھیں جو زیادہ تر اپنے ریاستی معاملات میں آزاد تھیں اور مختلف معاہدوں اور شرائط کے تحت برطانوی سامراج نے ان پر اپنا اثر رسوخ قائم کر رکھا تھا۔ راجے، مہاراجے، شہزادے، نواب یا امیر اپنے فیصلوں میں آزاد تھے۔ ان ریاستوں کو بہت حد تک خود مختاری بہرحال حاصل رہی، لیکن کچھ ریاستوں کو نیم خود مختاری حاصل تھی۔ اس کی تفصیل کئی ابواب کی متقاضی ہے، لیکن دیکھا جائے تو یہ یہ شاہی ریاستیں انتظامی، قانونی اور جغرافیائی طور پر تین درجوں میں تقسیم رہی تھیں۔ ان میں لگ بھگ 150 ریاستیں برطانوی حکومت سے معاہدے کے بعد قانونی و انتظامی امور پر مکمل اختیار رکھتی تھیں۔ اور یہ ریاستِ جموں و کشمیر، ریاست بہاولپور، ریاست جے پور، جونا گڑھ اور حیدر آباد دکن وغیرہ تھیں۔ دوسرے درجے کی ریاستوں کے چند داخلی معاملات میں برطانوی سامراج کو اختیارات حاصل تھے۔ اور تیسرے درجے کی تقریباً‌ 300 ایسی ریاستیں تھیں جو بلحاظِ رقبہ کم تھیں اور خود مختار بھی نہ تھیں۔

پاکستان سے کل 13 ریاستوں نے الحاق کیا۔ ان میں پہلے تذکرہ کرتے ہیں ریاست بہاولپور کا جو 150 فرسٹ کلاس ریاستوں میں سے ایک اور رقبے کے لحاظ سے بڑی تھی۔ یہی نہیں‌ اس کا شمار ان ریاستوں میں ہوتا ہے جو معیشت کے اعتبار سے بھی خوش حال تھی۔ ریاست بہاولپور کے سربراہ مسلمان تھے اور اس وقت اس کی 83 فیصد آبادی مسلمان تھی۔ یوں اس مسلم اکثریتی ریاست کا رقبہ 17226 مربع میل بتایا جاتا تھا۔ ریاست بہاولپور کے نواب کی قائد اعظم محمد علی جناحؒ سے ملاقات ہوئی جب کہ تاریخ بتاتی ہے کہ نہرو نے نواب صاحب کو بھارت میں شامل ہونے کی پیشکش کرتے ہوئے خاص عہدہ اور ریاست کی حیثیت کا یقین دلایا تھا۔ لیکن نواب آف بہاولپور نے انکار کر دیا۔

- Advertisement -

قیام پاکستان کے بعد مالی مشکلات کے موقع پر نواب آف بہاولپور نے اپنا ذاتی سونا بینک آف انگلینڈ میں بطور ضمانت جمع کروایا اور اس کے بعد پاکستان کو کرنسی چھاپنے کی اجازت ملی۔ اس کے علاوہ تعلیم اور صحت کی سہولیات عام کرنے کے لیے زمین دینے اور مالی امداد کا سلسلہ جاری رکھا۔

دوسری طرف ریاست سوات تھی جس کا قیام 1849ء میں عمل میں آیا تھا اور وہاں اخند حکمران ہوئے۔ یہ ریاست موجودہ ریاست خیبر پختونخوا کے کچھ علاقوں پر مشتمل تھی۔ والیٔ سوات میاں گل عبدالودود نے بطور مقتد ر حکم ران الحاق کی دستاویز قائد اعظم محمد علی جناح کو بھیجی تھی جس کی قبولیت کے بعد ریاست کا الحاق پاکستان سے ہوا۔ اسی طرح ریاست چترال جس کا محل وقوع بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اور اس کی مشرقی حدود گلگت بلتستان سے ملتی ہیں جب کہ ریاست کی شمال مغربی سرحد افغانستان کے صوبوں سے ملی ہوئی ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد چترال کے مہتر (نواب)، مہتر مظفر الملک تھے اور ریاست چترال پاکستان میں شامل ہوئی۔ اس کے لیے 1948ء میں قائد اعظم محمد علی جناح نے دستاویز پر دستخط کیے۔ سندھ میں ایک زرخیز ریاست خیر پور تھی اور یہ زرعی پیداوار کے لیے اس وقت بہت اہمیت کی حامل تھی۔ میر غلام حسین تالپور نے ریاست خیر پور کے حکمران کے نمائندے کے طور پر پاکستان سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کیے تھے۔ دوسری طرف بلوچستان کی کچھ چھوٹی ریاستیں جن میں‌ مکران، خاران اور لسبیلہ شامل تھیں پاکستان میں شامل ہوگئیں۔

ریاست جونا گڑھ اور مناودر کی بات کریں تو جنوری 1945ء میں قائداعظم نے مناودر کے علاقے بانٹوا کا دورہ کیا تھا۔ حاجی موسیٰ لوائی اپنی کتاب عکسِ بانٹوا میں لکھتے ہیں کہ یہ ان کا کاٹھیاواڑ کا پہلا دورہ تھا۔ قائداعظم کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ تقسیم ہند کے وقت ریاست کے نواب نے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا اور بھارت نے جارحیت کی اور فوجی طاقت کے بل بوتے پر اس پر قبضہ کر لیا۔ آج بھی نواب خاندان اسے پاکستان کا حصہ تصور کرتے ہیں اور اس پر قانونی چارہ جوئی کی ہے۔ ریاست امب کے علاوہ ریا ستِ دیر، ہنزہ و نگر بھی پاکستان کا حصہ بنیں۔

اگر ان ریاستوں کے الحاق کا مطالعہ کیا جائے تو اس حوالے سے کچھ تنازعات بھی سامنے آتے ہیں اور یہ پاکستان مخالف برطانوی افسر شاہی اور بھارت کے پروپیگنڈے کی وجہ سے ہے جب کہ مختلف ریاستوں کے حکمرانوں پر یہ بات واضح تھی کہ ان کا مستقبل صرف پاکستان کے ساتھ الحاق کی صورت میں ہے اور وہاں کی مسلمان اکثریت جناح صاحب کو اپنا قائد مانتی ہے۔ تاریخِ پاکستان یہ ثابت کرتی ہے کہ ان ریاستوں نے پاکستان کی تسخیر کو ناممکن بنایا اور ان ریاستوں کے غیور شہریوں نے ہمیشہ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے اپنا کردار ادا کیا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں