14 اگست 2024 آن پہنچا ہے اور ہر سال کی طرح قوم پاکستان کا 77 واں جشن آزادی منا رہی ہے۔ اپنی آزادی کا جشن منانا زندہ قوموں کی نشانی ہے اور اس روایت کو جاری رکھتے ہوئے وطن کے نونہالوں کو قوم کی تاریخ اور وطن کے لیے جدوجہد اور ان کی ذمے داریوں سے آگاہ کرتے ہوئے مستقبل کے معماران وطن تیار کیے جاتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں پاکستان کی آزادی کا جشن منانے کی روایت کچھ انوکھی ہے۔
بچّے تو بچّے ہوتے ہیں باجے بجائیں تو برداشت ہو جاتی ہے لیکن آج رات اور کل سارا دن منچلے سڑکوں پر آزادی کا جشن منانے نکلیں گے تو ہاتھ میں گز گز بھر لمبے بھونپو نما باجے لے کر پوں پاں سے آسمان سر پر اٹھائیں گے۔ دوسری طرف اکثریت ون ویلنگ کر کے اپنی اور دیگر کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالیں گے جو یہ نہیں کریں گے وہ بغیر سائلنسر موٹر سائیکلیں جیٹ جہاز کی طرح اڑاتے اور آواز کرتے ہوئے چلا کر اپنا فرض عین سمجھیں گے۔ یہ سب عجیب وغریب آزادانہ حرکات کرنے والوں کو اس سے غرض نہیں ہوگی کہ ان کے دن و رات باجا بجانے سے کسی مریض کو تکلیف ہوتی ہے، مساجد میں لوگوں کی عبادات میں خلل پڑتا ہے۔ گھروں میں سوئے ہوئے افراد کی نیند خراب ہوتی ہے۔ ان پر حب الوطنی کا یہ انوکھا جوش صرف ایک دن کے لیے چڑھتا ہے جس کا جشن منا کر پھر 364 دن غفلت کی نیند سوئے رہتے اور ملک کی ابتر حالت پر خود اپنے گریبانوں میں جھانکنے کے بجائے باقی وقت حکومت اور دوسروں کو برا بھلا کہنے میں وقت گزارتے ہیں۔
یوم آزادی یعنی 14 اگست کے روز بھی سرکاری، نیم سرکاری، نجی، سیاسی وسماجی سطح پر پرچم کشائی کی تقریبات ہوں گی جس میں حکمرانوں سمیت سب کی جانب سے پاکستان کو قائداعظم کا حقیقی پاکستان بنانے کی دل خوش کن تقاریر کی جائیں گی لیکن ان تقاریر کو عملی جامہ پہنانے کے بجائے اگلے دن ہی ان سب تقاریر کو بھلا کر اپنے پرانے معمولات پر واپس آ جائیں گے اور برسوں سے جشن آزادی منانے کا ہمارا وطیرہ یہی رہا ہے۔
پاکستان کوئی طشت میں رکھ کر پیش نہیں کیا گیا، بلکہ یہ لاکھوں جانوں کی قربانی دے کر حاصل کیا گیا اور اس کو بنانے سنوارنے میں لوگوں نے اپنی پوری زندگیاں صرف کر دیں۔
بانی پاکستان نے اپنے رفقا کے ساتھ طویل جدوجہد کرتے ہوئے چومکھی لڑائی لڑی جس کے ایک فریق قابض انگریز تھے تو دوسری جانب شاطر ہندو جب کہ ان کے درمیان اپنی ہی صفوں میں بیٹھے ہوئے کچھ غدار بھی لیکن عزم مسلسل سے قائد اعظم محمد علی جناح نے مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن حاصل کیا۔ افسوس وہ آزاد وطن کی فضا میں زیادہ عرصہ نہ رہ سکے اور صرف ایک سال بعد ہی وفات پا گئے جس کے بعد پاکستان کی کشتی کنارے نہیں لگ سکی۔ قائد اعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے اس کا اندازہ ان کے فرمودات سے ہو جاتا ہے۔
آئیے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے کچھ فرمودات پر نظر ڈالتے ہیں اور پھر اپنا محاسبہ کرتے ہیں۔
’مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرزِ حکومت کیا ہوگا؟ پاکستان کے طرزِ حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں۔ مسلمانوں کا طرزِ حکومت آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا۔ الحمد للہ ، قرآن مجید ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا۔‘ (آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے اجلاس سے خطاب، 15 نومبر1942ء)
ایک اور جگہ انہوں نے ارشاد فرمایا تھا کہ اسلامی تعلیمات کی درخشندہ روایات اس امر پر شاہد ہیں کہ دنیا کی کوئی قوم جمہوریت میں ہمارا مقابلہ نہیں کرسکی۔ جو اپنے مذہب میں بھی جمہوری نکتہ نظر رکھتے ہیں۔
میرا یقین ہے کہ ہماری نجات ہمارے عظیم قانون دان پیغمبر اسلام ﷺ کی طرف ہمارے لیے مقرر کردہ سنہری اصولوں پر عمل کرنے میں ہے۔ ہماری نجات کا راستہ صرف اور صرف اسوہ حسنہ ہے۔
’آج ہم یہاں دنیا کی عظیم ترین ہستی حضرت محمدﷺ کو نذرانۂ عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ آپ ﷺ کی عزت و تکریم کروڑوں عام انسان ہی نہیں کرتے بلکہ دنیا کی تمام عظیم شخصیات آپ ﷺ کے سامنے سر جھکاتی ہیں۔ وہ عظیم مصلح تھے، عظیم رہنما تھے، عظیم واضع قانون تھے، عظیم سیاستدان تھے اور عظیم حکمران تھے، ہم ان کی تعلیمات پر عمل کرتے رہے تو کسی میدان میں کبھی بھی ناکامی نہ ہوگی۔‘ (کراچی بار ایسوسی ایشن کے اجلاس سے خطاب،25جنوری 1948ء)
اگر انہی فرموداشت کی روشنی میں دیکھا جائے تو قائد اعظم نے قیام پاکستان سے قبل ہی ملک میں نظام حکومت کے لیے جمہوریت کو منتخب کیا تھا لیکن مغربی نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق۔ لیکن کیا آج کا پاکستان ان ارشادات پر پورا اترتا ہے؟ پاکستان میں 33 سال تک تو بلاشرکت غیرے فوجی حکمرانوں کی حکومت رہی ہے باقی جتنا عرصہ بچا اس میں بھی جمہوریت پنپ نہ سکی جس میں زیادہ قصور سیاستدانوں کا ہی ہے۔ دوسرا قائد اعظم کا ارشاد ملک میں قرآن کی تعلیمات کے مطابق حکومت کا قیام اور اسوہ حسنہ کو مشعل راہ بنانا طے کیا تھا، لیکن ہم نے پاکستان کے ساتھ اسلامی جمہوریہ لگا کر اور آئین میں شریعت کو اپنا قانون اور نظام بنانے پر اکتفا کر کے اور ہر سال سیرت کانفرنس کا انعقاد کرکے اپنے تئیں یہ سمجھ لیا کہ معراج پا لی لیکن آج حقیقی معنوں میں نہ ملک میں اسلامی نظام حکومت قائم ہے اور نہ ہی اسوہ حسنہ ﷺ کو مشعل راہ بنایا گیا ہے۔
قیام پاکستان کے بعد حضرت قائد اعظم نے ارشاد فرمایا تھا کہ ہم نے پاکستان حاصل کرلیا۔ لیکن یہ ہمارے مقصد کی ابتداء ہے، ابھی ہم پر بڑی ذمہ داریاں ہیں۔ حصول پاکستان کے مقابلے میں، اس ملک کی تعمیر پر کہیں زیادہ کوشش صرف کرنی ہے اور اس کے لیے قربانیاں بھی دینی ہیں۔
’چھوت چھات صرف ہندو مذہب اور فلسفے میں جائز ہے۔ ہمارے ہاں ایسی کوئی بات نہیں۔ اسلام انصاف، مساوات، معقولیت اور رواداری کا حامل ہے، بلکہ جو غیر مسلم ہماری حفاظت میں آ جائیں، اسلام اُن کے ساتھ فیاضی کو بھی روا رکھتا ہے۔ یہ لوگ ہمارے بھائی ہیں اور اِس ریاست میں وہ شہریوں کی طرح رہیں گے۔‘(مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے طلباء سے خطاب، 2نومبر 1940ء)
بانیِ پاکستان محمد علی جناح نے 11 اگست 1947 کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں کی گئی تقریر میں دیگر باتوں کے علاوہ نوزائیدہ ملک میں بسنے والے اقلیتی عوام کو تحفظ دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن کیا یہ وعدہ پورا ہو رہا ہے؟
بانی پاکستان کے یہ تمام ارشادات ہم پر حکومت کرنے والوں کو روڈ میپ فراہم کرتے ہیں لیکن حکمرانوں نے اپنے راستے ہی قائد کے فرمان سے بالکل جدا کر لیے۔ آج وزرا صرف نام کے خادم ہیں جب کہ اپنے عمل اور کردار سے وہ خود کو ملک وقوم کا مالک سمجھتے ہیں۔ ان کی توجہ عوام کی فلاح وبہبود کے بجائے اپنے اور اپنے خاندان کی فلاح وبہبود پر مرکوز ہو گئی ہے اور ذمے داریوں کی ادائیگی کے بجائے عزت وناموس کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے۔
وہ تعلیم کو تلوار سے زیادہ طاقتور سمجھتے تھے اور نوجوانوں کے لیے پیغام تھا کہ ’’آپ تعلیم پر پورا دھیان دیں۔ اپنے آپ کو عمل کے لیے تیار کریں یہ آپ کا پہلا فریضہ ہے آپ کی تعلیم کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ آپ دور حاضر کی سیاست کا مطالعہ کریں۔ یاد رکھیں ہماری قوم کے لیے تعلیم موت اور زندگی کا مسئلہ ہے۔
ہمارے ملک کے بانی نے جس کو قوم کی زندگی اور موت کا مسئلہ بتایا تھا وہ اول تو ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے جس کا اندازہ ہر سال بجٹ میں تعلیم کے لیے رکھے جانے والے بجٹ سے ہوتا ہے۔ سرکاری سطح پر ہماری خواندگی کی شرح 60 فیصد سے زائد بتائی جاتی ہے لیکن اس میں وہ بھی شامل ہیں جو صرف اپنا نام لکھنا اور پڑھنا جانتے ہیں جب کہ معیار تعلیم کا یہ حال ہے کہ دنیا کی 100 بہترین یونیورسٹیوں میں سے ایک بھی پاکستان کی جامعہ نہیں ہے۔
سرکاری سطح پر تو تعلیم کی حالت انتہائی دگرگوں ہے لیکن نجی تعلیمی اداروں نے بھی تعلیم کو مذاق بلکہ کاروبار بنا رکھا ہے اور اس کو اتنا مہنگا کر دیا ہے کہ اب غریب کے بس میں بھی بچوں کو نجی اسکولوں میں تعلیم دلانا خواب بن گیا ہے۔
قائد اعظم کے ارشادات صرف حکمران یا بالادست طبقے کے لیے نہیں تھے بلکہ انہوں نے قوم کو بھی اتحاد تنظیم اور یقین محکم کی تلقین، کام، کام اور بس کام، لوگوں کو اصولوں پر ڈٹ جانے اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کا درس دیا تھا، لیکن افسوس ان پیغامات کو پوری قوم بھلا بیٹھی ہے۔ بدقسمتی سے آج قوم خود کو مسلمان اور پاکستانی کہلانے کے بجائے پنجابی، سندھی، پٹھان، بلوچ، سرائیکی، پختون، مہاجر کہنے میں فخر محسوس کرتی ہے اور ہمارے سیاستدان اپنے اپنے سیاسی مفادات کے لیے جان بوجھ کر لسانیت کو فروغ دیتے اور مستقبل میں ملک وقوم کی باگ ڈور سنبھالنے والوں کو اس آگ میں جھونک دیتے ہیں۔
بانی پاکستان نے کفایت شعاری کو قومی دولت اور ہر مسلمان کو دیانت داری، خلوص اور بے غرضی سے پاکستان کی خدمت کرنے کا درس دیا تھا۔ ان ارشادات کی روشنی میں اگر ہم ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھانے کے بجائے اپنے گریبانوں میں جھانکیں تو سوائے شرمندگی کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
آج کا دن بحیثیت قوم ہمیں انفرادی اور اجتماعی حیثیت میں دیکھنا ہوگا کہ ہم جو لاکھوں جانوں کی قربانیوں سے حاصل اس آزاد وطن کی فضا میں سانس لے رہے ہیں تو کیا اس کا حق ادا کر رہے ہیں کیا ہم نے اسے اقبال کے خواب اور قائداعظم کی خواہش کے مطابق پنپنے دیا ہے۔
حرف آخر قوم جشن آزادی منائے اور بھرپور جوش وجذبے کے ساتھ منائے۔ پرچم کشائیاں کریں، حب الوطنی پر تقاریر بھی کریں، ملی نغمے بھی گائیں لیکن اس کو صرف ایک دن تک محدود نہ رکھیں بلکہ اپنے قول کو افعال میں تبدیل کریں تاکہ ملک کا پرچم سر بلند کرسکیں۔
(یہ تحریر/ بلاگ مصنّف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے)