اتوار, ستمبر 8, 2024
اشتہار

انصاف کی ”ترازو“ چوری ہوگئی!

اشتہار

حیرت انگیز

کچھ لوگوں کو اب خبر ملی ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے صدر دروازے کے باہر نصب انصاف کی علامت ”ترازو“ کے دونوں پلڑے غائب ہوگئے ہیں، حالاں کہ ہائی کورٹ جانے اور اس سڑک سے گزرنے والوں کے لئے یہ خبر نہ پرانی ہے اور نہ ہی چونکا دینے والی۔

جن لوگوں کا واسطہ عدالتوں سے پڑتا ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ صدر دروازے سے انصاف کی ترازو کے پلڑے ہی نہیں، عمارت کے اندر سے انصاف بھی غائب ہوچکا ہے۔ بھلا جس ملک میں عدلیہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہوں وہاں کوئی منصف انصاف کی ترازو کیسے تھام سکتا ہے؟ اور اگر کسی منصف نے اس کی ہمت بھی کی تو اس کے لکھے گئے فیصلے کی روشنائی خشک ہونے سے پہلے ہی اس کے تبادلے، رخصت یا ریٹائرمنٹ کا حکم صادر کر کے گویا خود اس کے ہاتھ قلم کر دیے گئے اور انصاف کی ترازو کے خالی پلڑے ہوا میں جھولتے رہ گئے۔

اگرچہ انصاف کی ترازو کے یہ پلڑے اسی غیر محسوس طریقے سے غائب ہوئے ہیں جس طرح معاشرے سے انصاف، لیکن، مقامِ حیرت ہے کہ انصاف غائب ہونے کی کسی کو خبر نہ ہوئی اور اگر کسی کو ہوئی بھی تو اس نے کوئی واویلا نہیں کیا یا شاید خود میں اتنی ہمت نہ پائی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انجام کو سامنے رکھتے ہوئے چپ سادھ لی ہو۔ اس کے برعکس ترازو کے پلڑے غائب ہونے کی لوگوں کو نہ صرف خبر ہوگئی بلکہ بہت سے لوگ اس فکر میں غلطاں و پیچاں بھی پائے گئے کہ آخر یہ پلڑے کیوں اور کس طرح غائب ہوئے؟ حالاں کہ ذرا سا غور کیا جائے تو بات سمجھ میں آجاتی ہے۔ یعنی جب معاشرے میں انصاف ہی نہیں رہا تو پھر ترازو اور اس کے پلڑوں کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے؟ کوئی عقل مند انہیں اتار کر لے گیا ہوگیا کہ انصاف نہ سہی ان پلڑوں کی عزت ہی محفوظ رہ جائے۔

- Advertisement -

یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ پلڑے، معاشرتی اور سماجی ناانصافیوں کا بوجھ سہار نہ سکنے کے باعث خود ہی کہیں منہ چھپا گئے ہوں یا پھر کوئی ضرورت مند انہیں ”پلیٹیں“ جان کر اتار لے گیا ہو، اس طرح اور کچھ نہیں تو ان میں کھانا تو کھایا ہی جاسکتا ہے۔ گویا یہ پلڑے کسی کو انصاف فراہم نہیں کرسکے تو کیا ہوا کسی کا پیٹ بھرنے کے کام تو آگئے۔ ہر چند موجودہ بے روزگاری، مہنگائی اور کراچی میں آئے دن کی ہڑتالوں کے باعث یہ امر بھی اپنی جگہ بجائے خود ایک سوال ہے کہ جب بہت سے گھروں میں چولہے ہی نہیں جل پاتے تو ان پلیٹوں میں ڈالنے کے لئے کھانا کہاں سے آتا ہوگا؟ اس صورتِ حال میں یہ بات زیادہ قرینِ قیاس ہے کہ کوئی سادہ لوح انہیں روٹیاں ہی سمجھ کر لے گیا ہو کہ بھوک میں تو کواڑ بھی پاپڑ لگتے ہیں۔

یہ بھی ممکن ہے کہ کسی ضرورت مند نے ان پلڑوں کو بیچ کر اپنے بیوی بچوں کے لئے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرلیا ہواگر ایسا ہے تو کم از کم یہ اطمینان تو حاصل ہوا کہ انصاف کی ترازو کے ان پلڑوں نے کسی کو انصاف بے شک نہ دیا ہو، دو وقت کی روٹی تو مہیا کردی۔ اس دور میں یہی بات بڑی بات ہے پیارے۔ یوں بھی جس شہر میں لوگ گٹر کے ڈھکن تک چوری کرنے سے دریغ نہ کرتے ہوں وہاں ان پلڑوں کی چوری پر حیرت کرنا کیا معنی؟ عین ممکن ہے کہ ان پلڑوں کو تھالیاں جان کر ایوان میں پہنچا دیا گیا ہو۔ بے شک ان دنوں وہاں لوٹوں کا رواج ہے اور گھوڑوں کی سوداگری ہورہی ہے۔ لیکن، تھالی کے بینگن کی اہمیت و افادیت سے کون انکار کرسکتا ہے؟ کون سا عہد یا دورِ حکومت ہوگا جب تھالی کے بینگن سے خاطر خواہ فائدہ نہ اٹھایا گیا ہو؟ اِدھر کچھ عرصہ سے تھالی کے بینگن کی جگہ لوٹوں نے لے لی ہے۔ ہوسکتا ہے اس کی وجہ بھی یہی ہو کہ یہ بینگن اپنی تھالیوں سے محروم ہوگئے تھے اور بغیر تھالی کے بینگن آپ جانیں انہیں ”بے گُن“ بھی کہا جاتا ہے اور وہ محض ”بھرتا“ بنانے کے کام ہی آسکتے ہیں یا زیادہ عزت افزائی مقصود ہو تو زیادہ مرچ مسالہ لگا کے ”بگھارے بینگن“ کے نام سے حیدرآباد کی شاہی ڈش قرار دیا جاسکتا ہے۔ توقع ہے کہ تھالیوں کے دستیاب ہوتے ہی یہ بینگن اپنی سابقہ حیثیتوں پر بحال ہوجائیں گے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ ان پلڑوں کو کچھ شریر بچے لے گئے ہوں اور تھالیاں پھینکنے اور پکڑنے والا کھیل کھیل رہے ہوں جسے ایک زمانے میں ٹیلی ویژن نے ”فرزبی“ کے نام سے متعارف کرایا تھا اور جب مائیں اپنے باورچی خانوں میں محض اس لئے تالا لگا کے رکھتی تھیں کہ کہیں ان کے لاڈلے سپوت کھانا کھانے کی رکابیوں سے گلی میں فرزبی کا میچ نہ کھیلنے لگیں۔ اگر یہ خیال درست ہو، اور ان پلڑوں کے غائب کرنے میں بچوں کا ہی ہاتھ ہو تو بھی اس میں بُرا منانے کی چنداں ضرورت نہیں، کیوں کہ جب ہمارے بڑے، ملک میں انصاف کو پنگ پانگ کی گیند یا کوئی اور کھلونا سمجھ کر اس کے ساتھ کھیل سکتے ہیں تو کیا بچوں کا ان پلڑوں پر بھی حق نہیں بنتا جو محض علامتی ترازو کی زینت تھے اور عملی طور پر کسی کام کے نہیں تھے۔ اب کوئی پرچون یا سبزی فروش تو وہاں اپنی دکان جما کر نہیں بیٹھ سکتا تھا کہ ترازو سے کوئی مثبت کام ہی لیا جاسکتا کیوں کہ ایسا کرنے کی صورت میں اسے ”توہینِ عدالت“ کا نوٹس مل جاتا اور اس کی بقیہ زندگی اس عمارت کے اندر وہ ”چیز“ تلاش کرتے گزر جاتی جس کا اس میں وجود بھی باقی نہیں رہا۔

قصّہ مختصر یہ کہ ان پلڑوں سے اب جو بھی کام لیا جا رہا ہو وہ ان کے بیکار اور بے مقصد لٹکے رہنے سے بدرجہا بہتر ہے۔ ہمیں تو بس یہ حسرت ہے کہ اے کاش! ہم میں ان پلڑوں کو غائب کرنے کی ہمت ہوتی تو آج وہ ہمارے ڈرائنگ روم کی کسی دیوار کی زینت ہوتے۔ ایسے ہی، جس طرح ہماری آپا (بیگم شوکت صدیقی) نے اپنے ڈرائنگ روم میں اپنا ”جہیزی ٹفن کیریئر اور دیگر اینٹیک (Antiques) برتن بھانڈے بطور آرائش ڈال رکھے ہیں اور ہم بھی اپنی آنے والی نسلوں کو وہ ”اینٹیک“ یہ کہہ کر بڑے فخر سے دکھاتے کہ یہ اس زمانے کی یاد گار ہیں جب عدالتوں اور معاشرے میں انصاف کا رواج ہوا کرتا تھا۔

(طنز و مزاح نگار، فیچر رائٹر اور سینئر صحافی حمیرا اطہر کا یہ کالم 1995ء میں کراچی کے ایک روزنامے میں شایع ہوا تھا اور یہ ان کی فکاہیہ تحریروں کے مجموعے ‘بات سے بات’ میں شامل ہے)

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں