تازہ ترین

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

چند قومی یادگاریں جو تحریکِ‌ آزادی کا نقشِ جاوداں ہیں!

ہندوستان کے مسلمانوں کی لازوال جدوجہد اور تحریکِ پاکستان کے لیے دی گئی بے شمار قربانیوں کی بدولت اس سال ہم 74 واں جشنِ آزادی منائیں گے جس کے لیے تیّاریاں جاری ہیں۔

14 اگست قریب ہے اور ہر سال کی طرح قومی پرچم اور بانی پاکستان و تحریکِ‌ آزادی کے مجاہدین کی تصاویر سے سرکاری و نجی اداروں کی بلند بالا عمارتیں، گھر اور شہروں کے مرکزی چوراہے اور نمایاں مقامات سجے ہوئے ہیں۔ یہ اس بات علامت ہے کہ ہم زندہ قوموں کی طرح جہاں اپنی تہذ یب و ثقافت، معاشرت اور اقدار کے امین ہیں، یہ اس امر کا اظہار بھی ہے کہ ہم ہمیشہ اپنے بزرگوں کی جدوجہد اور قربانیوں کو یاد رکھیں گے۔

یہاں ہم جدوجہدِ آزادی کی عظیم شخصیات اور تحریکِ پاکستان سے متعلق چند قومی یادگاروں کے بارے میں بتارہے ہیں جو آزادی کے ہیروز کی یاد ہی تازہ نہیں‌ کرتیں بلکہ فنِ معماری اور اپنے طرزِ تعمیر کی انفرادیت کے ساتھ انھیں خراجِ تحسین پیش کرنے کی ایک کاوش ہیں۔ ان میں مزارِ قائد، مزارِ اقبال، مینارِ پاکستان اور پاکستان مونومنٹ شامل ہیں۔

مزارِ قائد
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا مقبرہ معروف آرکیٹیکٹ یحیٰ مرچنٹ نے ڈیزائن کیا تھا۔ اس سے قبل چار نقشے رد کر دیے گئے تھے اور1959ء میں مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح کی خواہش پر یحییٰ مرچنٹ نے یہ کام انجام دیا تھا۔

یحییٰ مرچنٹ نے مزار کے ڈیزائن کا بنیادی کام 28 جنوری 1960ء کو مکمل کیا۔ تعمیر کا آغاز فروری 1960ء میں ہوا تھا۔ 31 جولائی 1960ء کو اس وقت کے صدر فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان نے مزار کا سنگِ بنیاد رکھا تھا- 31 مئی 1966ء میں مزار کا بنیادی ڈھانچہ مکمل کرلیا گیا۔

قائد اعظم کی آخری آرام گاہ پر مقبرہ تعمیر کرتے ہوئے اس عمارت کے ڈھانچے کو پائیلنگ (جس میں عمارت کے وزن کو زیرِ زمین بنائے گئے کنکریٹ کے ستونوں پر استوار کیا جاتا ہے) پر کھڑا کیا گیا ہے جو ہر قسم کے موسموں کا سامنا کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ مزار کی مرکزی عمارت بنیاد سے مربع شکل میں ہے جو کہ اندرونی طرف سے مثمن یعنی ہشت پہلو بنائی گئی ہے۔

اس مزار کے احاطے میں بانی پاکستان کے سیاسی اور آزادی کے سفر میں شریک رفقا کی قبور بھی ہیں۔ ایک طرف لیاقت علی خان اور دوسری قبر سردار عبد الرّب نشتر اور تیسری قبر محترمہ فاطمہ جناح کی ہے۔

مزارِ اقبال
ہندوستان میں مسلمانوں کی عظیم ریاست حیدر آباد دکن کے مشہور اور ماہر معمار صاحبزادہ نواب زین یار جنگ بہادر نے شاعرِ‌ مشرق کے مزار کا ڈیزائن تیّار کیا تھا۔

اس مزار کی تعمیر کا کام بوجوہ چند سال تاخیر سے شروع ہوا اور ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے اس وقت کی انتظامیہ سے 1946ء میں مزار کی تعمیر کی اجازت حاصل کی۔ اس کی تکمیل 1950ء میں ہوئی۔ نواب زین یار جنگ کو حیدر آباد سے لاہور بلوایا گیا اور انھوں نے علّامہ کی قبر اور محلِ وقوع کا جائزہ لینے کے بعد مزار کا ڈیزائن پیش کیا جس کی منظوری کے بعد چند سال میں تعمیر کا کام مکمل ہوگیا۔

مینارِ پاکستان
مینارِ پاکستان ایک قومی یادگار ہے۔ یہ عین اس جگہ واقع ہے جہاں 23 مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ نے قراردادِ پاکستان منظور کی تھی اور اس کے بعد مسلمانانِ برِصغیر کے لیے آزاد و خود مختار ریاست کے قیام کی جدوجہد شروع ہوئی تھی۔

اس قومی یادگار کے معمار و مصوّر روسی نژاد پاکستانی نصیر الدّین مرات خان تھے۔

مینارِ پاکستان کا سنگِ بنیاد 23 مارچ 1960ء کو رکھا گیا اور یہ تقریبا 8 سال کے عرصہ میں 21 اکتوبر 1968ء کو پایہ تکمیل کو پہنچا۔ اس یادگار کے ساتھ ایک وسیع و عریض باغ یا سبزہ زار کے لیے بھی جگہ مخصوص کی گئی تھی۔

پاکستان مونومنٹ
پاکستان کے دارُالحکومت اسلام آباد کے مشہور مقام شکرپڑیاں کا مونومنٹ یا یادگارِ پاکستان اُس عظیم جدوجہد اور تحریک کے لیے اپنی جان و مال اور ہر قسم کی قربانیاں دینے والوں کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہے جن کی بدولت ہم ایک آزاد وطن کی فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں۔

اسلام آباد میں پہاڑیوں پر بنائی گئی یہ یادگار پاکستانی عوام کے اتّحاد کی علامت بھی ہے۔ اسے آرکیٹیکٹ عارف مسعود نے ڈیزائن کیا تھا۔ پاکستان مونومنٹ کی تعمیر کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا اور یہ کام 2004ء میں شروع ہوا اور 23 مارچ 2007 ء میں مکمل کیا گیا۔

Comments

- Advertisement -