میں ساتویں اور آٹھویں جماعت میں تھا، جب صدر پاکستان نے میرے تین خطوں کے جواب دیے تھے۔
یہ صدر فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان تھے۔ اس عمر میں حکم ران اور وزرا ہی اہم شخصیات لگتے ہیں۔ کالج کے پہلے سال ہی یہ خیال ذہن سے نکل گیا اور ادیبوں شاعروں سے خط کتابت کرنے لگا۔
مجھے اس زمانے کی کوئی ایسی شخصیت یاد نہیں آتی، جسے خط لکھا ہو اور اس نے جواب نہ دیا ہو۔ مشرقی پاکستان اسمبلی کے اسپیکر عبدالحمید چوہدری کا خط مجھے اکثر یاد آتا ہے… جو انہوں نے اردو میں لکھا اور مجھے لگا کہ اردو لکھنے میں کافی تگ و دو کرنا پڑی۔
ان دنوں سرکاری محکمے اخبارات میں چھپنے والے مراسلات پر بھی توجہ دیتے تھے۔ 4 مارچ 1964 کو میرا ایک مراسلہ لاہور کے روزنامہ مشرق میں شائع ہوا (تاریخ یوں یاد رہی کہ اسی دن میں پورے 13 سال کا ہوا تھا) بات یہ تھی سکّوں کا اعشاری نظام آنے کے بعد بہت عرصہ نئے اور پرانے سکوں کے تبادلے میں بہت گڑبڑ رہی۔ بہاول پور سے کلانچ والا ٹرین کا کرایہ 53 پیسے یعنی پرانے ساڑھے آٹھ آنے تھا۔ بکنگ کلرک نو آنے یعنی 56 پیسے وصول کر رہے تھے۔ انہی دنوں گاؤں گئے تھے، واپس آتے ہی اخبار کو خط لکھا۔ چھپنے کے اگلے دن والد صاحب نے کہا تمہاری شکایت پر بکنگ کلرک کو معطل کر دیا گیا ہے۔
وہاں کے ملازمین آئے تھے، کہہ رہے تھے بچے سے کہیں معاف کر دے۔ لکھ دے کہ غلط فہمی ہوئی، جو دور ہو گئی۔ مزید یاد نہیں کہ والد صاحب نے کیا کیا۔ وہ خود یونین لیڈر تھے۔ کسی کو بے روزگار کرنا برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ ہاں ریلوے والوں نے بچہ اس لیے کہا کہ میرے نام کے ساتھ جماعت ہفتم بھی چھپا تھا۔ اس دوران مجھے ریلوے ہیڈ کوارٹر سے خط بھی آگیا کہ آپ کی شکایت پر کارروائی کر رہے ہیں۔
کوئی دو سال پہلے، یعنی 50 سال بعد پھر کسی سرکاری شخصیت کو خط لکھا… یہ تھے چئیر مین سینیٹ… ایک اہم معاملے کی طرف توجہ دلانا چاہتا تھا، انہیں ہی موزوں سمجھا، یہ بھی خیال تھا کہ قائد اعظم کے اے ڈی سی کے بیٹے ہیں، خط کا جواب دینے جیسے اصول اور عادات ضرور ان تک ضرور پہنچی ہوں گی، لیکن جواب تو کیا ان کے عملے کی طرف سے خط ملنے کی رسید/ اطلاع تک نہ ملی۔ یہ 40 سال کے قریب صحافت میں گزار چکے ایک ’بزرگ شہری‘ کا خط تھا، کوئی فضول Fan Mail تو نہیں ہوگی۔
(اسلم ملک کی تحریر سے اقتباس)