پیر, مارچ 31, 2025
اشتہار

کیا سیاست دانوں‌ کے جھوٹ بولنے پر پابندی لگائی جاسکتی ہے؟

اشتہار

حیرت انگیز

برطانیہ کی ریاست ویلز کی حکومت نے گزشتہ سال کے اواخر میں سیاست دانوں کے جھوٹ بولنے پر پابندی لگانے کا عزم کیا تھا۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا قانون ہوگا اگر اسے منظور کر کے رائج کیا گیا۔ ویلز کی حکومت اگلے سال کے انتخابات سے قبل یہ قانون متعارف کروا سکتی ہے جس کے تحت جان بوجھ کر گمراہ کن بیانات دینے پر اراکینِ پارلیمان کو معطل کیا جاسکے گا۔

اگر یہ قانون نافذ ہوجائے گا تو رکن پارلیمان کو جھوٹے یا گمراہ کن بیانات واپس لینے کے لیے 14 دنوں کی مہلت دی جائے گی اور مہلت ختم ہونے پر بذریعہ عدالت اسے اگلے چار سال تک کے لیے الیکشن سے دور رکھا جاسکے گا۔ لیکن ہمارے ملک میں شاید جھوٹ، گمراہ کن بیانات، یو ٹرنز اور کردار کشی کے بغیر سیاست کو سیاست نہیں‌ سمجھا جاتا۔ بلکہ مشہور تو یہ ہے کہ سیاست اور جنگ میں‌ سب کچھ جائز و روا ہے۔ یہ مزاح پارہ پاکستانی سیاست اور ایوانوں‌ میں بیٹھ کر قوم کے مستقبل کے فیصلے کرنے والے سیاست دانوں‌ کی تصویر کشی کرتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

سیاست داں سے بڑا سیاح کوئی نہیں۔ اندرون ملک وہ ایک پارٹی سے دوسری اور دوسری سے تیسری کی سیاحت کرتا ہے اور اگر کسی جوڑ توڑ کے نتیجے میں برسراقتدار آجاتا ہے، تو سرکاری خرچے پر اپنے اہل و عیال، دوست احباب اور خوشامدیوں کے ساتھ ملکوں ملکوں گھومنے پھرنے کا لائسنس حاصل کر لیتا ہے۔ سیاست داں کو وفاداری بدلنے کے لیے اسمبلی کا ایک ٹکٹ یا کابینہ کی ایک نشست کی ترغیب کافی ہے۔

اب تو سیاسی وفاداری کا معیار یہ رہ گیا ہے کہ جس پارٹی نے کسی سیاست داں کو خریدا ہے، وہ اسی کا ہو رہے، لیکن وہ تو دھڑلے سے کہتا ہے کہ سیاست میں کوئی چیز حتمی، آخری یا مستقل نہیں ہوتی۔ چناں چہ جب بھی انتخابات کا موسم قریب آتا ہے سیاست کا میدان ”اسٹاک ایکسچینج“ میں تبدیل ہو جاتا ہے اور سودوں میں تیزی آجاتی ہے۔ انگریزی میں اس طرح بک جانے والے سیاست داں کو Turncoat کہا جاتا ہے، جب کہ اردو میں وہ اپنی لڑھکتی خصلت کے باعث ”لوٹا“ کہلاتا ہے۔ جس پارٹی سے وہ قطع تعلق کرتا ہے، وہ اسے ”گندا انڈہ“ قرار دیتی ہے اور جہاں جاتا ہے وہاں اس کی ایسی آؤ بھگت ہوتی ہے کہ وہ خود کو بھگت کبیر سمجھنے لگتا ہے۔ آپ ایسے کسی سیاست داں کے جس کو سابقہ ریکارڈ کی بنا پر شرمندہ کرنے کی کوشش کریں، تو وہ علامہ اقبال کی سند لے آتا ہے:

جہاں میں اہل ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے

سیاست داں کا ہر قدم ہر قول، ہر کام قوم کے بہترین مفاد میں ہوتا ہے۔ اس کے ”یو ٹرنز“ قلابازیوں، کہہ مکرنیوں اور وعدہ خلافیوں، سب پر قوم کے بہترین مفاد کی چھاپ لگی ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ وہ قومی خزانے کی لوٹ کھسوٹ بھی قوم کے بہترین مفاد میں کرتا ہے۔ وہ قوم کے بہترین مفاد میں کوئی ادارہ بناتا ہے اور پھر قوم کے بہترین مفاد میں اسے بند کر دیتا ہے۔ یہی حال قانون سازی کا ہے۔ بے چارہ قانون خود پکار اٹھتا ہے کہ ’میں ترا چراغ ہوں، جلائے جا بجھائے جا۔‘ عوام کی بے لوث خدمت اس کا اولین و آخرین نصب العین ہوتا ہے۔ سیاست داں اس وقت تک خدمت کرتا رہتا ہے، جب تک دَھر نہیں لیا جاتا اور جب دَھر لیا جاتا ہے، تو پولیس وین میں بیٹھ کر پوری ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انگلیوں سے ”وی“ (V) کا نشان بنانا نہیں بھولتا، جس سے اپنے حواریوں کو یہ پیغام دینا مقصود ہوتا ہے کہ ڈٹے رہو جیت بالآخر بدعنوانی کی ہوگی۔ جیل جاتے ہی وہ بیمار پڑ جاتا ہے اور سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر اسپتال کے اسپیشل واڈ میں داخل کر لیا جاتا ہے۔ اس دوران اس کی ضمانت ہو گئی، تو ٹھیک ورنہ میڈیکل بورڈ فوراً اس کی مرضی کے ملک میں علاج کی سفارش کر دیتا ہے اور وہ یہ کہتا ہوا نو دو گیارہ ہو جاتا ہے کہ؎

اب تو جاتے ہیں بُت کدے سے میر
پھر ملیں گے اگر خدا لایا

(مزاح نگار ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی تصنیف کتنے آدمی تھے؟ سے اقتباس)

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں