ملک کے سیاسی افق پر اس وقت جو سب سے اہم معاملہ چھایا ہوا ہے، وہ مجوزہ آئینی ترامیم کا ہے۔ آئینی ترامیم کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، مگر موجودہ وقت یہ گواہی دے رہا ہے کہ اس وقت حکومت سمیت ’’سب‘‘ کی جان مولانا فضل الرحمان کے پاس موجود طوطے (ہاں) میں ہے۔
کچھ عرصہ قبل جب ملک میں آئینی ترامیم کا زور اپنے پورے شور کے ساتھ اٹھا، تو حکومت کی جانب سے اس آئینی ترامیم کے مسودے کو اس طرح چھپایا گیا کہ جیسے یہ کوئی قانون سازی کا مسودہ نہیں بلکہ ایک نامحرم دوشیزہ ہو جس کا دیدار اپوزیشن پر تو حرام، لیکن خود حکومتی وزرا بھی اس کی جھلک دینے سے محروم رہے۔ اس آئینی ترامیم کی منظوری کے لیے، جہاں حکومت اور اس کے حمایتیوں نے اپنا ہر حربہ استعمال کیا۔ وہیں اپوزیشن جماعت بالخصوص تحریک انصاف نے بھی اس کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ پی ٹی آئی کا یقین کی حد تک گمان یہ ہے کہ اس ترمیم کے ذریعے پی ٹی آئی کا راستہ روکا جائے گا اور بانی پی ٹی آئی عمران خان جنہیں سول عدالتوں سے ہر مقدمے میں بریت یا ضمانت مل رہی ہے، انہیں فوجی عدالتوں کے سپرد کر دیا جائے گا۔
آئینی ترامیم کے پہلے راؤنڈ میں تو بظاہر پی ٹی آئی کی جیت ہوئی اور فضل الرحمان کے آئینی ترامیم کا مسودہ مسترد کرنے اور منظوری کی حمایت سے دو ٹوک انکار کے بعد کچھ دن یہ معاملہ دب گیا۔ اسی دوران صدر مملکت کے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کی منظوری دے دی جو حیران کن طور پر اسی قانون سازی کی نفی ہے، جس کی موجودہ حکمرانوں نے گزشتہ سال پی ٹی ایم کی حکومت میں منظوری دی تھی جب کہ قومی اسمبلی سمیت وفاقی حکومت اور اس کی اتحادی پارٹیوں کے حکومتوں کے زیر سایہ صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکرز نے الیکشن کمیشن کو الیکشن ایکٹ ترمیمی بل پر عملدرآمد کا خط لکھ کر ایک اور لڑائی کا میدان کھول دیا ہے بلکہ حقیقت میں تو مولانا فضل الرحمان کی ویٹو کی پوزیشن ختم کرنے کی کوشش ہے، کیونکہ سپریم کورٹ کے 12 جولائی کے فیصلے سے جہاں حکومت کی دو تہائی اکثریت ختم ہوگئی تھی اور مولانا کی 8 نشستوں کی قدر وقیمت بڑھ گئی تھی۔ اب ان خطوط پر عملدرآمد کی صورت میں جہاں حکومت کو واپس دو تہائی اکثریت مل سکتی ہے وہیں مولانا کے نہ ماننے کی صورت میں ان سے کنارا بھی کیا جا سکتا ہے، جب کہ پی ٹی آئی کا ایوان سے صفایا ہوسکتا ہے۔
مولانا فضل الرحمان کا سیاست میں کردار کچھ جماعتوں کے نزدیک متنازع رہا ہے اور ماضی میں وہ اکثر ہر حکومت کے پشتی بان کا کردار ادا کرتے رہے ہیں اور اسی لیے وہ بالخصوص اپنے اپنے وقت کی اپوزیشن جماعتوں کی تنقید کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ تاہم پہلے حکومت کا حصہ نہ بن کر انہوں نے اپنے ناقدین خاص طور پر پی ٹی آئی کو حیران کیا اور اب آئینی ترامیم پر تمام تر پرکشش حکومتی پیشکشوں کے باوجود اب تک ہاں کی اقرار نہ کرنے سے ان کا سیاسی قد جو پہلے ہی بلند ہے، مخالفین کی نظر میں بھی بلند ہوگیا ہے اور وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ ان کی مولانا کے بارے میں ماضی میں جو رائے تھی، وہ غلط تھی۔ اس معاملے کے ذریعے پی ٹی آئی اور جے یو آئی میں جو دوریاں ہوچکی تھیں وہ بھی قربت میں تبدیل ہو رہی ہیں، جو ملکی سیاست کے لیے اچھا شگون کہا جا سکتا ہے۔
اس آئینی ترامیم میں ایسا کیا ہے کہ جس کی منظوری کے لیے حکومت اور اس کے حمایتی اپنا پورا زور لگا رہے ہیں، تو پی ٹی آئی اس کی شدید مخالفت کر رہی ہے۔ میڈیا پر اس حوالے سے جو بھی مسودے گردش کر رہے ہیں ان کے بارے میں حکومتی وزرا خود کہہ چکے ہیں کہ وہ اصل نہیں۔ اصل کیا ہے شاید یہ حکومت کو بھی علم نہیں، یا پھر کچھ خاص کو ہی علم ہے لیکن ایک بات جو اب سیاسی رہنماؤں بالخصوص بلاول بھٹو اور پی پی رہنماؤں نے کہنا شروع کر دی ہے، کہ وہ آئینی عدالت قائم کر کے رہیں گے کیونکہ ملک میں عوام انصاف کے لیے رُل رہے ہیں لیکن عدالتوں کو سیاسی مقدمات نمٹانے سے فرصت نہیں۔
بات اس حد تک تو درست ہے، لیکن باقی میڈیا میں زیر گردش مصدقہ وغیر مصدقہ مسودے کے مطابق اگر آئینی عدالت میں چیف جسٹس کا تقرر وزیراعظم کرے اور وہ چیف جسٹس آف پاکستان کہلائے۔ سپریم کورٹ کو اس کا ماتحت کر دیا جائے اور اس کا چیف صرف چیف جسٹس سپریم کورٹ کہلائے جب کہ اس کی تقرری بھی آئینی عدالت کا چیف جسٹس کرے۔ ہائی کورٹ کے ججز کا کہیں بھی تبادلہ کر دیا جائے اور جہاں ان کا تبادلہ ہو وہاں وہ چیف جسٹس نہیں بن سکتے، سمیت ایسے کئی مجوزہ اقدامات بتاتے ہیں کہ اگر کام ٹھیک بھی ہے تو کرنے کی نیت ٹھیک نہیں ہے اور کسی بھی عمل کی صداقت کا پیمانہ تو نیت پر ہی منحصر ہوتا ہے۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کی منظوری کے شور میں چند روز یہ معاملہ دبا رہنے کے بعد اب دوبارہ پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ ابھر کر سامنے آیا ہے۔ حکومت اور پی ٹی آئی دونوں اطراف سے فضل الرحمان کی جانب سے ان کے موقف کی حمایت کا دعویٰ کیا جا رہا ہے جب کہ فضل الرحمان کی حال ہی میں میڈیا نمائندوں سے گفتگو نے بھی کچھ ابہام پیدا کر دیا ہے تاہم جے یو آئی رہنماؤں نے واضح کیا ہے کہ ان کی جماعت اس معاملے پر کسی کے ساتھ نہیں اور جو بھی ملک وقوم کے لیے بہتر ہوگا وہی فیصلہ کریں گے لیکن ایک بات اب ابھی دہرائی گئی ہے کہ جے یو آئی کو آئینی ترامیم کا مسودہ اب تک نہیں ملا جب کہ چالیس ترامیم میں سے صرف ایک ترمیم کے بارے میں فضل الرحمان کو آگاہ کیا گیا ہے۔
ماہر قانون عابد زبیری نے تو انکشاف کیا کہ آئین کے آرٹیکل 190 کے مطابق سپریم کورٹ کے جو احکامات ہیں سب اس کو ماننے کے پابند ہوں گے۔ وہاں سے حکومت نے سپریم کورٹ کا لفظ ہی نکال دیا ہے اور اس کی جگہ وفاقی آئینی عدالت لکھ دیا گیا ہے یعنی سپریم کورٹ اس ترمیم کی منظوری کے بعد ایک ماتحت عدالت گی اور آئینی عدالت کے فیصلوں کو سپریم کورٹ کو بھی تسلیم کرنا ہوگا۔ ان ترامیم کے بعد سپریم کورٹ کی حیثیت ایک سول کورٹ جیسی رہ جائے گی، جس کے چیف کی حیثیت بھی سول کورٹ کے جج جتنی ہوگی۔ وفاقی آئینی عدالت کی موجودگی میں سپریم کورٹ میں صرف چھوٹے موٹے دیوانی فوجداری جیسے مقدمات نمٹائے جائیں گے۔ اس کے علاوہ ہائی کورٹس کے پاور اور اختیارات کو بھی ختم کردیا گیا ہے، ترمیمی مسودے کے مطابق ہائی کورٹس نیشنل سیکیورٹی کے مسائل بھی نہیں حل کرسکے گا۔ قانونی ماہرین کے مطابق آئینی ترامیم میں وفاقی آئینی عدالت کے جج کی عمر 68 سال ہوگی اور سپریم کورٹ کے تین سینئر ججز میں سے کسی کا بھی تقرر چیف جسٹس کیا جا سکے گا۔
کچھ قانونی ماہرین آئینی عدالت کو انتہائی ضروری بھی قرار دے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ دنیا کے 50 سے زائد ترقی یافتہ ممالک میں آئینی عدالتیں موجود ہیں، لیکن جہاں ہر معاملے پر ذاتی مفادات کو ترجیح دی جانے لگے تو پھر ہر تبدیلی پر شکوک اور انگلیاں تو اٹھتی ہیں۔
26 ویں آئینی ترمیم منظور ہوتی ہے یا نہیں، یہ تو ابھی زیر بحث ہے۔ لیکن توجہ طلب بات یہ بھی ہے کہ پاکستان کا نظام انصاف اس وقت عالمی سطح پر 130 ویں نمبر پر ہے اور وہ نچلے چند نمبروں سے ہی اوپر ہے۔ ایسے میں انصاف کو سپریم کورٹ اور آئینی عدالت کے درمیان پنڈولم بنا دینے سے پاکستان کے حصے میں مزید جگ ہنسائی کے سوا کچھ نہیں آئے گا۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اس اہم مسئلے پر انا اور سیاسی مفاد کو بالائے طاق رکھ کر یکجا ہوں اور آئینی ترامیم کا ایسا پیکیج لائیں جس سے کا کوئی فریق نشانہ بھی نہ ہو اور عوام کو بروقت انصاف بھی مل سکے، لیکن پاکستان کے سیاسی ماحول میں کیا ایسا ممکن ہو سکے گا۔
نوٹ: (یہ مصنف کی ذاتی رائے اور خیالات پر مبنی تحریر ہے جس کا ادارے کی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں ہے)