آئی سی سی ورلڈ ٹیسٹ چیپمپئن شپ 25-2023 میں ٹاپ رینکنگ سے آغاز، ون ڈے اور ٹی 20 کی ٹاپ ٹیم، کرکٹرز رینکنگ میں بلے باز اور بولرز سر فہرست، ہر بڑا آئی سی سی ایوارڈ پاکستانی کرکٹرز کی جھولی میں۔ یہ ہے ماضی قریب کی پاکستان کرکٹ ٹیم لیکن آج سب کہہ رہے ہیں کہ ’’دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو‘‘
پاکستان کرکٹ میں سب کچھ اچھا جا رہا تھا اور یہ سب اچھا تھا 2023 کے ابتدائی 6 ماہ تک۔ اس کے بعد بازی ایسی پلٹی کہ ہر کوئی انگشت بدنداں رہ گیا کہ یہ ہوا کیا ہے پاکستان ٹیم صرف بڑی ٹیموں سے نہیں بلکہ اپنے سے کہیں کمزور ٹیموں سے اپنے ہی میدانوں میں آسانی سے زیر ہو رہی ہے اور ایسا اس لیے ہو رہا ہے کہ موسم کی طرح بدلتی پی سی بی انتظامیہ نے اپنی خواہشات کی پیروی میں کپتانی کی خواہش کو ایسے بڑھایا کہ بیک وقت ٹیم میں چار پانچ کپتانی کے امیدوار پیدا کر دیے۔ تو جس طرح ایک نیام میں کئی تلواریں نہیں رہ سکتیں، اسی طرح ایک ٹیم میں کئی کپتان کیسے یکجا رہ سکتے ہیں۔
ایشیا کپ، ون ڈے ورلڈ کپ، ٹی 20 ورلڈ کپ میں عبرت ناک شکستیں تو پرانی ہوچکیں اور اس پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ بنگلہ دیش جیسی کمزور ٹیم کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں گزشتہ ماہ اپنی سر زمین پر وائٹ واش شکست کے زخم ابھی مندمل بھی نہ ہوئے تھے، کہ انگلینڈ نے اپنے ریگولر اور ورلڈ کلاس آل راؤنڈر کپتان بین اسٹوکس کے بغیر میدان میں اتر کر پاکستان کرکٹ ٹیم کی وہ درگت بنائی اور ایسی تاریخی فتح سمیٹی کہ جس کے زخم مندمل ہونے میں نہ جانے کتنا وقت لگے گا۔
ملتان ٹیسٹ ریکارڈ ساز رہا لیکن صرف انگلینڈ کے لیے، پاکستان کے نام تو صرف بدنامی ہی آئی اور وہ اس میچ کے ساتھ ہی ایک ایسی پاتال میں جا گری، جس میں ٹیسٹ کرکٹ کی لگ بھگ ڈیڑھ صدی قدیم تاریخ میں کوئی چھوٹی سے چھوٹی ٹیم بھی نہ گری ہوگی۔ پاکستان وہ واحد ٹیم بنی جس نے پہلی اننگ میں 550 سے زائد رنز اسکور کیے اور پھر اننگ کی شکست کھا بیٹھی۔ اس میچ سے پاکستان ٹیم نے یہ بات پھر ثابت کر دی کہ وہ جیتا ہوا میچ ہارنے کے ہنر سے بخوبی واقف ہے۔ جس طرح گزشتہ ماہ بنگلہ دیش کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میں مہمان ٹیم کی 26 رنز پر 6 وکٹیں گرانے کے بعد کسی نے تصور نہ کیا ہوگا کہ اس میچ میں بدترین ناکامی ملے گی لیکن ایسا ہوگیا۔ اسی طرح اب بھی کسی کے وہم وگمان میں نہ تھا کہ پاکستان کرکٹ کی تاریخ کی بدترین ٹیم بن جائے گی لیکن ٹیم نے اپنی ’’صلاحیتوں‘‘ سے یہ ناممکن بھی کر دکھایا۔ جس بیٹنگ پچ پر پاکستانی بولر 800 سے زائد رنز کھانے کے باوجود پوری انگلینڈ ٹیم کو ڈھیر نہ کر سکے اسی پچ پر ہمارے بیٹنگ کے شیر 220 رنز پر ڈھیر ہوگئے۔
پاکستان جو بنگلہ دیش سے حالیہ سیریز میں شکست کے بعد پہلے ہی اپنے ملک میں ابتدائی 10 ٹیسٹ اقوام میں شامل تمام ٹیموں سے سیریز ہارنے والا دوسرا ملک بن چکا تھا اور ٹیسٹ کرکٹ کی بدترین ٹیم بن گیا۔ انگلینڈ کے خلاف اس شرمناک شکست کے بعد پی سی بی نے جو فوری اقدامات کیے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ جس بڑی سرجری کا اعلان کئی ماہ قبل کیا گیا تھا اس پر عملدرآمد شروع کر دیا گیا ہے۔ قومی ٹیم کی سلیکشن کمیٹی تبدیل کرنے کے ساتھ بابر اعظم، شاہین شاہ اور نسیم شاہ جیسے بڑے نام اگلے دو ٹیسٹ سے باہر کر دیے گئے ہیں۔ شان مسعود کا ستارا بھی گردش میں ہے اور وہ مسلسل 6 تیسٹ میچ جیت کر ناکام ترین کپتان کا اعزاز پہلے ہی پاچکے ہیں۔ اگر اگلے دو ٹیسٹ میچ میں حسب منشا نتائج نہ ملے تو یقینی طور پر اگلا قربانی کا بکرا وہی ہوں گے۔
اس صورتحال میں بابر اعظم کے ساتھ شاہین شاہ اور نسیم شاہ جیسے کھلاڑیوں کو ایک ساتھ ہی ٹیم سے ڈراپ کرنے سے لگتا ہے کہ پی سی بی میں پینک بٹن دب چکا ہے اور اس صورتحال میں کیے گئے اکثر فیصلے بعض اوقات بیک باؤنس ہو کر خود اپنے ہی گلے پڑ جاتے ہیں۔ اگر ان کو باہر کرنے کے بعد بھی اگلے دو ٹیسٹ میچز میں حسب منشا نتائج نہ مل سکے تو پھر بورڈ کیا کرے گا، کیا وہ پوری ٹیم کو آرام کے نام پر ڈراپ کر کے نئی ٹیم تشکیل دے گا؟
مذکورہ تینوں کھلاڑیوں کی فارم گو کہ کچھ عرصہ سے بہتر نہیں بابر اعظم کا بلا اگر ایک سال سے رنز نہیں اگل رہا تو دوسری جانب انجریز سے نجات کے بعد دونوں بولر بھی پرانی شان رفتار سے بولنگ نہیں کر پا رہے لیکن یہ نہ بھولیں کہ تینوں میچ ونر اور تن تنہا ٹیم کو میچ جتوانے والے کھلاڑی ہیں اور کئی بار اس کو ثابت کر چکے ہیں۔ اس لیے اگر ان کو ڈراپ کر کے سخت پیغام دینا ہے تو اس سوچ سے گریز کیا جائے اور ان بڑے کھلاڑیوں کو مکمل سپورٹ کیا جائے کیونکہ اگلے کچھ سالوں تک یہی پاکستانی ٹیم کو کئی میچ حتیٰ کہ ٹرافی تک جتوانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
پاکستان کی حالیہ ایک سال میں اس نا قابل یقین بدترین کاکردگی پر ہمارے سابق قومی کرکٹرز اور دنیا بھر کے شائقین کرکٹ سمیت روایتی حریف بھارت میں بھی شائقین اور سابق وموجودہ کرکٹرز حیران ہیں۔ کچھ ٹیم پر طنز کر رہے ہیں تو اکثر ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے گرین شرٹس کی موجودہ صورتحال پر افسوس بھی ظاہر کر رہے ہیں۔ پاکستان کرکٹ کو اس حال تک لانے میں کون ذمے دار ہے تو یقینی طور پر بورڈ کی غلط پالیسیوں کے ساتھ کرکٹرز بھی اس میں برابر کے ذمے دار ہیں۔
پاکستان کرکٹرز کی نفسیات کو سمجھنا ہے تو پاکستان کی کرکٹ سے کسی نہ کسی طور منسلک سابق کھلاڑیوں کی رائے جان لیجیے۔ ان میں ایک پاکستان کے سابق کوچ مکی آرتھر ہیں، جن کا کہنا ہے کہ حد سے زیادہ تشہیر کھلاڑیوں کو حقیقت سے دور کر رہی ہے۔ کھلاڑی خود کو زیادہ بڑا سمجھتے ہیں جب کہ میڈیا پر منفی باتیں اور ایجنڈے بھی ٹیم کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔
کیون پیٹرسن جو پی ایس ایل کھیل کر پاکستانی کرکٹرز کی نفسیات سے اچھی طرح آگاہ ہو چکے ہیں وہ اعتراف کرتے ہیں کہ پاکستان میں کرکٹ کا ناقابل یقین ٹیلنٹ موجود ہے تاہم اس کے ساتھ ہی وہ اس جانب بھی نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستانی ٹیم کے کھلاڑیوں کی کارکردگی میں تسلسل نہیں اور وہ صحیح ٹریننگ نہیں کرتے۔ سسٹم میں خامیوں کی موجودگی تک پاکستان ٹیم ایک یونٹ کی طرح نہیں کھیل سکتی، ناقص ٹریننگ اور زیادہ جذباتی ہونے جیسے رویوں کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے، اگر یہ کلچر تبدیل نہ کیا گیا تو پاکستان ٹیم بھی کبھی بہتر نہیں ہو سکے گی۔
ماہرین کی اسی رائے کی روشنی میں اگر گہرائی سے جائزہ لیں تو کرکٹرز کو اس حال تک پہنچانے میں ہم شائقین کرکٹ کا بھی اتنا ہی ہاتھ ہے جتنا کہ خود بورڈ کی ناقص پالیسیوں یا کرکٹرز کی لاپرائیوں کو۔ کیونکہ ہم خود جلدباز ہیں اسی لیے کسی ایک ہی اننگ یا بولر کے اچھے اسپیل پر انہیں سر پر چڑھاتے اور پھر ایک بری کارکردگی پر خود ہی نیچے گرا دیتے ہیں۔ یہ شائقین اور ٹی وی چینلز پر بیٹھے ماہرین ہی ہیں جو صرف ایک سنچری یا پانچ وکٹوں پر کرکٹرز کا موازنہ سر ڈان بریڈ مین، جاوید میانداد، ٹنڈولکر، لارا، عمران خان، رچرڈ ہیڈلی ودیگر ماضی کے بڑے لیجنڈ کرکٹرز سے کر دیتے ہیں۔ اس سے ایک جانب جہاں شائقین کرکٹ کی امیدیں آسمان کو چھونے لگتیں ہیں وہیں لیجنڈز ہم پلہ قرار دیے جانے پر نوجوان کرکٹرز کی آنکھیں بھی خیرہ ہو جاتی ہیں اور وہ پھر اس چکاچوند میں وہ اپنی اصل منزل کھونے لگتے ہیں۔
کبھی کبھی ٹیموں پر ایسا وقت بھی آتا ہے کہ کوئی ایک کھلاڑی نہیں بلکہ پوری ٹیم ہی آؤٹ آف فارم لگتی ہے جیسا کہ 90 کی دہائی میں بھارتی ٹیم کے ساتھ ہوا تھا وہ ہر میچ ہار رہی تھی اور اب اسی نہج پر پہنچ گئی ہے۔ قومی ٹیم میں اس وقت سوائے محمد رضوان کے کسی بیٹر کی جانب سے مسلسل رنز سامنے نہیں آ رہے۔ کچھ عرصے میں ہوم گراؤنڈ پر سب سے بدترین ریکارڈ ہمارے پیسرز کا ہے، شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ انجریز سے نجات کے بعد سابقہ فارم میں واپس نہیں آ سکے، نوجوان پیسرز میں کوئی ایسا نہیں جسے میچ ونر کہہ سکیں، اسپنرز تو ہمارے ملک میں ایسے نایاب ہو گئے جیسے گرمیوں میں بجلی اور سردیوں میں گیس ہوتی ہے۔ قابل بھروسہ آل راؤنڈر کا شعبہ برسوں سے خالی ہے۔
بابر اعظم سے فارم کیا روٹھی لگتا ہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم سے فتح ہی روٹھ گئی ہے۔ یہ الارم ہے کہ کرکٹ ٹیم فرد واحد نہیں بلکہ 11 کھلاڑیوں کا مجموعہ ہے اور جیت میں سب کو ہی اپنا حصہ ڈالنا پڑتا ہے۔ ہمیں اس صورتحال سے مستقبل کا تعین کرتے ہوئے ٹیم میں ہر کھلاڑی کا بیک اپ تیار کرنا چاہیے اور کھلاڑیوں کو ذہنی طور پر مضبوط کرنا چاہیے تاکہ وہ کسی بھی مشکل صورتحال میں خود کو نکال سکیں۔ کیونکہ ہماری ٹیم کی نفسیات بن گئی ہے کہ اگر ایک دو وکٹیں اوپر تلے گر جائیں تو پھر وکٹوں کی جھڑی لگ جاتی ہے اور تو چل میں آیا جیسی صورتحال ہو جاتی ہے جو کھلاڑیوں کی ذہنی مضبوطی پر سوالیہ نشان ڈالتی ہے۔
لگتا ہے کہ ٹیم کو صرف فزیکل ٹرینر اور فزیو کی ہی نہیں ایک سائیکاٹرسٹ کی بھی ضرورت ہے جو انہیں مستقبل کے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لیے تیار کر سکے اور یہ کوئی شرم کی بات نہیں بڑے بڑے بورڈ اپنی ٹیم کے لیے ماہرین نفسیات کا تقرر کرتی ہیں۔ اس وقت شارٹ ٹرم منصوبہ بندی اور تنقید سے بچنے کے لیے عارضی فیصلوں سے بہتر ہے کہ ٹیم کے مفاد میں ایسے فیصلے کیے جائیں، جس سے ٹیم اپنا عروج دوبارہ حاصل کر سکے ورنہ جس طرح ماضی میں کالی آندھی کے نام سے مشہور ویسٹ انڈیز ٹیم اب صرف ’’پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا‘‘ کی عملی تفسیر بن گئی ہے ہمارا حشر بھی کہیں ایسا نہ ہو جائے۔
(یہ تحریر مصنف / بلاگر کی ذاتی رائے اور خیالات پر مبنی ہے جس کا ادارے کی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں)