اشتہار

استاد اللہ بخش:‌ فنِ‌ مصوّری میں پاکستان کی پہچان

اشتہار

حیرت انگیز

خداداد صلاحیتوں کے مالک اور فنِ مصوّری میں پاکستان کا نام روشن کرنے والے اللہ بخش کو ‘بابائے فطرت’ کہا جاتا ہے۔ استاد اللہ بخش نے ماڈرن لینڈ اسکیپ اور تشبیہی نقّاشی (Figurative painting) میں اپنے فن و کمال کی بدولت بین الاقوامی سطح پر توجہ اور شہرت پائی۔ 1978ء میں آج ہی کے دن استاد اللہ بخش وفات پاگئے تھے۔

استاد اللہ بخش کی فنِ مصوّری میں مہارت اور کمال اُن کی لگن، ریاضت اور مسلسل مشق کا نتیجہ تھا۔ انھوں نے کم عمری میں پینٹ اور برش کا استعمال سیکھ لیا تھا، لیکن فنِ‌ مصوّری کی بنیادی تعلیم منی ایچر پینٹنگ کے ماہر استاد عبد اللہ سے حاصل کی۔ وہ نوعمری میں تشہیری بورڈ پینٹ کرنے کا کام کرنے لگے تھے۔ بعد میں استاد اللہ بخش نے بمبئی، کلکتہ میں مختلف ایسے اداروں سے وابستگی اختیار جو تشہیری پینٹنگ، سینری اور پورٹریٹ بنانے کا کام کرتے تھے۔ اس دوران ان کا رنگوں اور برش سے گہرا تعلق قائم ہوا اور وہ تجربہ کار پینٹر بن گئے۔ کچھ عرصہ بعد وہ لاہور لوٹے اور ایک اخبار میں کمرشل آرٹسٹ کے طور پر کام کرنے لگے اور بعد میں ایک مصوّر کی حیثیت سے انھوں نے پنجاب کی دیہاتی زندگی اور ثقافت کو کینوس پر اتارنا شروع کیا اور یہی پینٹنگ دنیا بھر میں ان کی وجہِ‌ شہرت بنیں۔ استاد اللہ بخش نے پنجاب کی رومانی داستانوں کو اپنی تصاویر کا موضوع بنایا اور مشہوور کرداروں جن میں ہیر رانجھا، سوہنی مہینوال اور مرزا صاحباں شامل ہیں، انھیں اپنے مصوّرانہ تخیل سے کینوس پر منتقل کرکے خوب داد پائی۔

استاد اللہ بخش کا تعلق پنجاب کے شہر وزیر آباد سے تھا جہاں انھوں نے 1895ء میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد کرم دین محکمہ ریلوے کی ورک شاپ میں رنگ ساز تھے۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ شروع ہی سے استاد اللہ بخش کو گھر میں رنگ اور برش سے کھیلنے کا موقع ملا تھا۔ وہ دیہات کے حسن اور قدرتی ماحول میں‌ پلے بڑھے تھے جس نے انھیں فطرت کا دلدادہ بنا دیا تھا۔ والد کا انتقال اس وقت ہوا جب اللہ بخش صرف سات برس کے تھے اور اب گھر چلانے کی ذمہ داری ان کی تھی۔ وہ اپنی بہنوں میں اکلوتے بھائی تھے۔ اللہ بخش نے انگریزی حروف تہجی لکھنا سیکھے اور ریلوے میں ہی ٹرین کے ڈبوں پر لکھنے اور روغن کرنے کا کام کرنے لگے۔ یوں روزی روٹی کا آسرا ہوگیا۔ اس دوران اللہ بخش نے تصویریں بنانا شروع کر دیں اور مسلسل مشق جاری رکھی۔ نقل کرتے ہوئے ان کا ہاتھ اتنا صاف ہوگیا کہ انھیں لاہور میں تھیٹر کے پردے بنانے کی آفر ہوئی جسے اللہ بخش نے قبول کرلیا اور بعد میں ان کو آغا حشر کے تھیٹر سے بھی وابستہ ہونے کا موقع ملا۔

- Advertisement -

ایک بار بمبئی سے کچھ فن کار لاہور آئے اور وہاں استاد اللہ بخش کے بنائے ہوئے پردے دیکھے۔ انہی کے کہنے پر اللہ بخش نے قسمت آزمانے کے لیے بمبئی کا رخ کیا تھا۔ وہاں ابتداً ایک پینٹر کی دکان پر چہرے اور ہندو دیوتاؤں کی تصویریں بنانے کا کام کرنے لگے۔ یہ تصاویر شاید اس زمانے میں وہاں کے لیے لوگوں کے لیے نئی چیز تھی۔ ان کا خوب شہرہ ہوا۔ لوگ دھڑا دھڑ ان سے تصویر بنانے لگے اور کاروبار خوب چمکا۔ 1919ء میں انھیں شملہ فائن آرٹس سوسائٹی کی جانب سے انعام سے نوازا گیا تھا اور اخبارات نے انھیں بمبئی کا ماسٹر پینٹر کہا، مگر اس حوصلہ افزائی کے باوجود وہ سب کچھ چھوڑ کر لاہور واپس آگئے۔ وہ سیلانی طبیعت کے سبب کسی ایک جگہ جم کر کام نہیں کر پائے۔ استاد اللہ بخش آبی، روغنی ، ٹیمپرا اور پوسٹر رنگوں کے علاوہ چاک وغیرہ میں بھی بڑی مہارت سے کام کرتے تھے۔ پنجاب کے دیہات کی روزمرّہ زندگی کی تصویر کشی کے علاوہ انھوں نے زرخیز میدانی علاقوں اور وہاں کی لوک داستانوں کو اپنے فن میں پیش کیا۔ ان کی حقیقت سے قریب تر پینٹنگز رنگوں، زندگی اور جیتے جاگتے لوگوں سے بھرپور تھیں، جس نے دیکھنے والوں کو بہت متاثر کیا۔

1924ء میں مہاراجہ جموں کشمیر نے انھیں کورٹ پینٹر کی ملازمت کی پیشکش کی، جہاں وہ تقریباً 1938ء تک خدمات انجام دیتے رہے۔ اس عرصے میں انھوں نے بہت سی تصاویر بنائیں، جب کہ ماقبل 1928ء میں ممبئی میں ایک تصویری نمائش میں ان کی ایک تصویر کو اوّل انعام دیا گیا تھا۔ استاد اللہ بخش کا کام فنِ‌ مصوری میں‌ عالمی سطح پر بھی زیرِ بحث آیا۔

استاد اللہ بخش کے لاہور میوزیم میں کئی فن پارے رکھے گئے ہیں جو شائقین کی توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔ حکومت پاکستان نے استاد اللہ بخش کو ’تمغائے حسنِ کارکردگی‘ سے نوازا تھا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں