بہت خوب ٹیم پاکستان، کمال کر دکھایا کچھ تبدیلیوں نے، ٹیم کی فضا ایسی بدلی کہ شکستوں کے بادل چھٹ گئے اور ٹیم فتح کی ٹریک پر گامزن ہوئی۔
انگلینڈ کو تیسرے ٹیسٹ میں صرف ڈھائی دن میں ہی پسپا کر کے لگ بھگ ساڑھے تین سال بعد اپنی سر زمین پر ٹیسٹ سیریز جیتی اور یہ جیت اس لیے بھی بہت اہمیت رکھتی ہے کہ جیت کنگ اور شاہین کے بغیر ملی۔
پاکستان ٹیم نے اس جیت کے ساتھ ہی ایک بار خود کو ایسی ٹیم ثابت کردیا جس کے بارے میں کوئی پیشگوئی کرنا محال ہے کیونکہ ایک سال سے پے در پے شکستوں جس میں بنگلہ دیش جیسی ٹیم سے اپنے ہوم گراؤنڈ پر ٹیسٹ سیریز میں وائٹ واش، پہلی بار ورلڈ کپ کھیلنے والی امریکا سے انہونی شکست کے بعد ورلڈ کپ سے شرمناک اخراج، افغانستان اور آئرلینڈ سے شکستوں کے بعد پوری ٹیم ناقدین کی تنقیدوں کے تیروں کی زد میں تھی اور انگلینڈ کے ہاتھ پہلا ٹیسٹ میچ پہلی اننگ میں 500 رنز بنانے کے باوجود اننگ کی شکست سے ہارنے کے بعد سب کو ایک بار پھر پاکستان ٹیم کے وائٹ واش شکست کا یقین ہو چلا تھا۔
اس شکست کے بعد پاکستان کرکٹ ٹیم کے چیئرمین محسن نقوی جنہوں نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے بعد ٹیم کی بڑی سرجری کا اعلان کیا تھا لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر اس سرجری کو ایک دو چہرے ہٹانے کے بعد پس پشت ڈال دیا تھا لیکن انگلینڈ کے خلاف اس بدترین شکست نے شاید پی سی بی کی بند آنکھیں بھی کھول ڈالیں اور چیئرمین نے اس سرجری کا عملی طور پر آغاز کر دیا، جس کا تین ماہ پہلے اعلان کیا گیا تھا۔
آئی سی یو میں موجود پاکستان کرکٹ ٹیم کے نیم مردہ وجود کے آپریشن کے لیے سب سے پہلے چیئرمین پی سی بی نے سرجنز کی نئی ٹیم لائے۔ ان میں عاقب جاوید، اظہر علی اور علیم ڈار جیسے کرکٹ کو سمجھنے والے دماغ تھے جنہوں نے قومی کرکٹ ٹیم کو آپریشن تھیٹر میں لے جا کر اس کا آپریشن شروع کیا اور سب سے پہلے آؤٹ آف فارم ہونے کے باوجود برسوں سے ٹیم کے لیے ناگزیر بنے کھلاڑیوں کو ٹیم سے باہر کرنے کا جرات مندانہ فیصلہ کیا، اور پھر ان کی جگہ برسوں سے ڈومیسٹک میں اپنی کارکردگی کی بدولت قومی ٹیم میں شمولیت کے لیے دروازہ کھٹکٹانے والے کامران غلام پر ٹیم کا دروازہ وا کیا۔ اس کے ساتھ ہی کئی سال سے نظر انداز ساجد خان اور نعمان علی کو ٹیم میں واپس لایا گیا اور پھر ایسا جادو چلا کہ انگلینڈ کی تمام بتیاں ہی گل ہوگئیں۔
جس ٹیم میں حالیہ کچھ عرصے سے اسپننگ ٹیلنٹ کے حوالے سے شکوک وشبہات ملکی اور عالمی سطح پر اٹھائے جا رہے تھے۔ اسپنرز نے ہی موقع ملنے پر دو ٹیسٹ میچ کی چاروں اننگز میں انگلینڈ کے تمام 40 بلے بازوں کو ڈھیر کر کے سب کے شکوک وشبہات کو دفن کر دیا۔ ساجد اور نعمان کی جوڑی کی گھومتی گیندوں سے انگلش بلے باز ایسا چکرائے کہ 39 تو ان کے بچھائے جال میں پھنسے جب کہ ایک وکٹ زاہد محمود کو ملی۔ اس کارکردگی نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ ’’زرا نم تو یہ مٹی بہت ذرخیز ہے ساقی‘‘۔
چیئرمین پی سی بی کے جرات مندانہ فیصلے کے بعد ان کی بھرپور سپورٹ سے نئی سلیکشن کمیٹی نے وہ بولڈ فیصلے کیے جن کا ماضی میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ پاکستان کرکٹ منیجمنٹ نے ڈیڈ پچز کے بجائے اسپن ٹریک بنا کر اسپنرز کے ذریعے حریف ٹیم کو قابو کیا۔ لیکن اب ٹیم کا اگلا مشن آسٹریلیا اور پھر زمبابوے ہے جہاں بالخصوص آسٹریلیا میں پاکستان ٹیم کو فاسٹ ٹریک ملے گا اور قومی ٹیم کو بھی اب خود کو نئے روپ میں ڈھالنا ہوگا۔
پی سی بی نے گزشتہ روز محمد رضوان کو ون ڈے اور ٹی 20 کا کپتان مقرر اور سلمان علی آغا کو ان کا نائب مقرر کر کے، کئی روز سے جاری اس میوزیکل چیئر گیم کا خاتمہ کیا۔ اس اہم تقرری سے کچھ دیر قبل پی سی بی نے 28 کھلاڑیوں پر مشتمل 15، 15 رکنی چار مختلف اسکواڈ دورہ آسٹریلیا اور زمبابوے کے لیے اعلان کیے۔ یہ بھی پی سی بی کا ایک دانشمندانہ فیصلہ ہے کہ زمبابوے جیسی قدرے کمزور ٹیم میں بابر اعظم، شاہین شاہ، نسیم شاہ کو آرام دے کر ڈومیسٹک پرفامرز کو موقع دے کر انہیں انٹرنیشنل کرکٹ میں اتارا جا رہا ہے۔ اعلان کردہ اسکواڈ میں کسی بھی کھلاڑی کو چاروں اسکواڈ میں شامل نہیں کیا گیا۔ محمد رضوان تین اسکواڈ میں شامل، جب کہ زمبابوے کے خلاف انہیں ڈراپ کر کے نائب کپتان بنائے گئے سلمان علی آغا کو کپتانی کا موقع فراہم کرنا مستقبل کے لیے بہترین حکمت عملی ہے۔
پاکستان نے آئندہ سال آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی کرنی ہے، اور اس میگا ایونٹ کا وہ میزبان ہونے کے ساتھ ٹورنامنٹ کا دفاعی چیمپئن بھی ہے۔ گرین شرٹس کے پاس نئے کپتان کے ساتھ چیمپئنز ٹرافی کی تیاری کے لیے کم از کم گیارہ ون ڈے میچز ہیں۔ ان میں آسٹریلیا، زمبابوے اور جنوبی افریقہ کے خلاف تین، تین ون ڈے انٹرنیشنل میچز کی سیریز اور اگلے سال چیمپئنز ٹرافی سے قبل اپنی سر زمین پر نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ کے ہمراہ سہ ملکی ون ڈے سیریز ہوگی۔ ان گیارہ میچز میں ہی محمد رضوان کو چیمپئنز ٹرافی کے لیے وننگ کمبی نیشن بنانا ہوگا۔ چیئرمین پی سی بی محسن نقوی کو بھی کوشش کرنی ہوگی، کہ ٹیم کی یکجہتی کے لیے ،کوششیں کی جائیں، نہ کہ کوئی ایسا شوشا چھوڑا جائے جیسا کہ ان کے پیشرو ذکا اشرف نے دوران ون ڈے ورلڈ کپ اور نجم سیٹھی نے گزشتہ سال جیت کی راہ پر گامزن گرین شرٹس میں کپتان کی تبدیلی کا شوشا چھوڑ کر ٹیم میں کپتانی کے خواہشمندوں کی قطار لگا کر اس کے اتحاد کو مشکل میں ڈال دیا تھا، جس کا نتیجہ پھر ہم نے کئی ناقابل یقین شکستوں کی صورت میں دیکھ بھی لیا۔
انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز کی جیت سے ثابت ہوگیا کہ کھلاڑی نہیں بلکہ ہمیشہ کھیل اہم ہوتا ہے۔ جب کھلاڑی کھیل سے ہی کھلواڑ کریں تو پھر ایسے ہی نتائج ملتے ہیں جیسا کہ ہمیں گزشتہ ایک، ڈیڑھ سال سے مل رہے تھے۔ کرکٹ ٹیم گیم ہے کبھی کبھار تن تنہا پرفارمنس میچ جتواتی ہے لیکن اکثر فتوحات ٹیم کی مشترکہ کوششوں سے ملتی ہیں۔ ٹیم کے 11 کھلاڑیوں کو یہ بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا کہ وہ خوش نصیب کہ 25 کروڑ میں سے ان 11 کا قومی ٹیم کی نمائندگی کے لیے انتخاب کیا گیا اور اب وہ 25 کروڑ عوام کی امیدوں کا محور ومرکز ہیں۔
پی سی بی کو بھی اپنے صرف موجودہ اقدام پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہیے۔ جس طرح کامران غلام کئی سال تک پرفارمنس کے باوجود ٹیم سے باہر رہا۔ ایسے کئی کامران غلام، ساجد خان اور نعمان ڈومیسٹک میں پرفارمنس دکھا رے ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو بھی چاہیے کہ وہ شارٹ ٹرم پالیسی کے بجائے طویل مدتی منصوبہ بندی کرتے ہوئے، ہر کھلاڑی کا بیک اپ تیار کرے اور ایک پوزیشن کے لیے ایک سے زائد کھلاڑی بیک اپ میں ہوں تاکہ جہاں اس سے ٹیم میں مسابقت کی دوڑ ہوگی اور اچھے نتائج ملیں گے، وہیں کھلاڑیوں کو اپنی شہرت کے بل بوتے پر من مانی کرنے اور شہرت کے نشے میں آپے سے باہر ہونے کا موقع نہیں ملے گا۔ جب کہ ٹیم منیجمنٹ بھی آؤٹ آف فارم نامور کھلاڑی کا بیک اپ نہ ہونے پر اسے مسلسل کھلا کر ہار کا مارجن بڑھانے اور کھلاڑی کا اعتماد متزلزل کرنے کے بجائے نئے چہروں کو موقع دینے کی پوزیشن میں ہوگی، جیسا کہ آسٹریلیا کی ٹیم کرتی ہے اور اس کے دنیائے کرکٹ کے بے تاج بادشاہ ہونے کی وجہ بھی یہی ہے کہ ان کا ڈومیسٹک کرکٹ کلچر بہت مضبوط اور کھلاڑیوں کو میچور ہونے کے بعد قومی ٹیم کی نمائندگی دی جاتی ہے۔ پی سی بی چیئرمین محسن نقوی یہ کہہ کر بابر اعظم سے بھرپور سپورٹ کا اظہار کرچکے ہیں کہ وہ پاکستان کرکٹ کا قیمتی اثاثہ ہیں۔ بابر اعظم بے شک اس وقت اپنے کیریئر کے بدترین دور سے گزر رہے ہیں، لیکن اس بات سے کوئی بھی اختلاف نہیں کرے گا کہ وہ موجودہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے سب سے با صلاحیت کرکٹر ہیں۔ فارم آنی جانی لیکن کلاس مستقل ہوتی ہے۔ تو چند بُری پرفارمنس پر بابر اعظم کا پوسٹ مارٹم کر کے ناقدین ان کے حوصلے پست کرنے کے بجائے ہمت افزائی کریں۔ اب تو قیادت کا بوجھ بھی انہوں نے خود سر سے اتار دیا ہے۔ امید ہے کہ اب وہ پوری طرح اپنی بیٹنگ پر فوکس کریں گے اور ٹیم کی جیت میں اپنا حصہ ڈالتے رہیں گے۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ کبھی بھی کوئی ٹیم نہ مستقل جیتتی ہے اور نہ ہی ہارتی ہے۔ لیکن ہار میں بھی وقار ہو اور کھلاڑی یک جان ہو کر فتح کے لیے لڑتے دکھائی دیں، تو پھر قوم ہارنے کے باوجود بھی ٹیم کو سپورٹ کرتی ہے۔ تاہم اگر بغیر لڑے ہی ہتھیار ڈال دیے جائیں تو یہ بزدلانہ طریقہ قوم کے لیے ناقابل قبول ہوتا ہے۔ امید ہے کہ پاکستان ٹیم جو جیت کے ٹریک پر آئی ہے، پھر نہ پھسلے گی اور جیت کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے مختلف بحرانوں میں گھرے عوام کے چہروں پر خوشیوں کے پھول کھلاتی رہے گی۔