گزشتہ ایک دہائی سے باؤلرز کو جو مسائل درپیش ہیں اس میں مشکوک باؤلنگ ایکشن سب سے اہم ہے جس سے مرلی دھرن سے سعید اجمل تک کے لیجنڈز اسپینرز کو گزرنا پڑا جب کہ ایسے باؤلرز کی فہرست طویل ہے جنہیں عالمی مقابلوں میں مشکوک قرار دے کر نئے سرے سے اکیڈمی میں بولنگ ایکشن کو درست کرنا پڑا۔
باؤلرز کے مشکوک ایکشن کی بین الاقوامی مقابلوں میں پکڑ دراصل ڈومیسٹک کرکٹ کی انتظامی اور کوچنگ کی سطح پر بنیادی غلطیوں کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ ایک باؤلر اسکول لیول سے ہوتا ہوا بین الاقوامی ٹیم میں جگہ بنالیتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہی کامیابی کی منازل بھی طے کرلیتا لیکن اچانک پتا چلتا ہے کی اس کے باؤلنگ ایکشن میں جھول ہے جسے دور کیے بغیر اس کی کرکٹ میں واپسی ممکن نہیں ہو گی۔
کرکٹ میں نئے قوانین کے بعد اسکول، کالج یا ڈومیسٹک لیول پر ہی باؤلرز کے ایکشن کو جانچنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے کیوں کہ ایمپائر کی نگاہ 15 ڈگری کا زاویہ ناپنے میں اکثر ناکام نظر آتی ہے اور ڈومیسٹک لیول پر ایسی کوئی ٹیکنالوجی دستیاب نہیں جو اس مسئلے کو جانچ سکے۔
تاہم پاکستانی انجینئرز کی ٹیم نے ایک ایسی ٹیکنالوجی متعارف کرادی ہے جس سے باؤلنگ کے وقت بازو کا زاویہ مقررہ وقت کے دوران درست طریقے سے جانچا جاسکتا ہے اسے آستین کی طرح بازو پر پہنا جا سکتا ہے جس میں نہایت مختصر بایو میٹرک ڈیٹیکٹو لگے ہوتے ہیں جو کہنی کی حرکت سے سگنل کو موصول کر کے موبائل ایپ یا کمپیوٹر کی اسکرین پر ڈگری کی شکل میں واضح کر دیتی ہے۔
کرکٹ فلیکس کے نام سے کی گئی اس ایجاد کو باؤلر دستانوں کی طرح کہنی تک بآسانی پہن لیتا ہے اور پھر کھلاڑی کی کہنی کو تین مختلف زاویوں پر رکھنے کا کہا جاتا ہے جسے آلہ ریکارڈ کر لیتا ہے اور باؤلنگ کے دوران جیسے ہی باؤلر بال پھینکتا ہے آلہ کہنی سے موصول سنگنل کو ریکارڈ کردہ زاویے سے پرکھ کر فوری نتیجہ دے دیتا ہے۔
پاکستانی انجینئرز نے اس پراڈکٹ کو 2015 میں ایم ٹی اے میں پیش کیا تھا جب کہ امریکا میں بھی اس پراڈکٹ کو متعارف کرایا جاچکا ہے تاہم ابھی اس آلے کے نتائج کی صحت کو مزید پرکھنے اور جانچنے کے لیے لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنس کی لیب میں ٹیسٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے یہ لیب پی سی بی کی جانب سے قائم کی گئی ہے۔
پاکستانی نوجوانوں کو امید ہے کہ پی سی بی کی لیب سے منظوری کے بعد یہ پراڈکٹ ڈومیسٹک سطح پر ہی باؤلرز کے ایکشن کی جانچ پڑتال کی جا سکے گی یہ پراڈکٹ مختلف کرکٹ اکیڈمیز کو بھی بھیجی گئی ہے جو نوجوان باؤلرز کے لیے کافی مفید رہے گی اور پاکستانی باؤلرز کو ایکشن کے حوالے سے درپیش شکوک و شبہات اور بار بار کے تجربوں سے نجات ملے گی۔
واضح رہے کہ جیسے جیسے کرکٹ میں تیزی، مقبولیت اور جدت آتی جا رہی ہے ویسے ویسے نئے مسائل بھی سامنے آ رہے ہیں جس کے لیے نئے قوانین مرتب کیے جارہے ہیں، وہ قوانین چاہے ایک اوور میں ایک باؤنسر کرانے کی حد ہو یا بلے باز کے کندھے سے اونچی بال کروانے کا معاملہ ہو یا پھر پاور پلے ہو سارے قوانین کا تعلق باؤلرز سے ہوتا ہے جس کے باعث بلے باز بآسانی رنزز کے ڈھیر لگا لیتے ہیں جس کے باعث 50 اوورز کے میچ میں 300 سے زائد رنز بنانا عام ہو گیا۔