جمعرات, دسمبر 26, 2024
اشتہار

ہمالیہ والا: ایک ‘ولن’ کا تذکرہ

اشتہار

حیرت انگیز

تقسیمِ‌ ہند سے قبل فلم انڈسٹری سے وابستہ ہونے والے فن کاروں‌ میں ایک نام ہمالیہ والا بھی تھا جو بٹوارے کے بعد پاکستان آگئے اور یہاں‌ کئی فلموں‌ میں اپنی اداکاری سے شائقینِ‌ سنیما کے دل جیتے۔ ہمالیہ والا کو پاکستانی فلموں میں زیادہ تر ولن اور عیّاش شخص کے کرداروں میں دیکھا گیا۔

اداکار ہمالیہ دراز قد، بارعب اور باوقار شخصیت کے مالک تھے جن کا اصل نام محمد افضل الدّین تھا۔ ان کا سنہ پیدائش 1919ء اور تعلق اترکھنڈ کے دارالحکومت دہرہ دون سے تھا۔ ہمالیہ والا کا نام اس لیے پڑا کہ ان کے بھائیوں کی ایک کمپنی "ہمالیہ ڈرگ” کے نام سے تھی۔ وہ اسی نسبت سے ہمالیہ والا مشہور ہوگئے۔ ہمالیہ والا نے فلمی دنیا چھوڑنے کے بعد لاہور کے واپڈا ہاؤس میں ایک فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ کھول لیا تھا۔ وہ پراپرٹی کے کاروبار سے بھی منسلک رہے۔ اداکارہ ہمالیہ والا نے تقسیمِ ہند سے قبل کی ایک معروف گلوکارہ امیر بائی کرناٹکی اور بعد میں اداکارہ بیگم پروین سے شادی کی تھی۔ یکم جنوری 1984ء کو ہمالیہ والا انتقال کر گئے تھے۔

1949ء میں پاکستانی فلم شاہدہ میں ہمالیہ والا نے ایک دولت مند کا منفی کردار نبھایا۔ انھوں‌ نے مغرور اور عیاش شخص کے روپ میں سنیما بینوں سے خوب داد سمیٹی۔

- Advertisement -

تقسیمِ ہند سے قبل ہمالیہ والا نے متحدہ ہندوستان کی فلمی صنعت میں ایک درجن سے زائد فلموں میں کام کیا اور پاکستان آنے کے بعد انھوں نے دو درجن سے زیادہ فلمیں کیں۔ فلمی تذکروں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمالیہ والا کی پہلی فلم 1942ء میں ‘کس کی بیوی’ کے نام سے ریلیز ہوئی تھی۔ ابتدائی چند فلموں میں وہ چھوٹے موٹے کرداروں میں نظر آئے۔

قیامِ پاکستان سے قبل ہمالیہ والا کی پہلی قابلِ ذکر کی بات کی جائے تو یہ فلم زینت تھی جو 1945ء میں سید شوکت حسین رضوی کی بطور فلم ساز اور ہدایت کار ایک کام یاب فلم تھی۔ اس میں ہمالیہ والا ولن تھے۔ اسی سال ریلیز ہونے والی ہدایت کار محبوب خان کی تاریخی فلم ہمایوں میں ہمالیہ والا کو قدرے بہتر رول ملا جو شاہِ وقت کے معتمد ہوتے ہیں۔

1946ء میں اداکار ہمالیہ والا نے نام وَر ہدایت کار اے آر کار دار کی ایک تاریخی فلم شاہ جہاں میں بھی بادشاہ کے قابلِ بھروسا ساتھی کا کردار ادا کیا تھا جس کا نام جوالا سنگھ ہوتا ہے۔ 1947ء میں ہدایت کار محبوب خان کی فلم اعلان میں بھی ہمالیہ والا کو ولن کا کردار سونپا گیا۔ وہ اس روپ میں پوری فلم پر چھائے رہے۔ اس میں منور سلطانہ ہیروئن تھیں۔ فلم میں ہیروئن کی شادی ہیرو کے بجائے ہمالیہ والا یعنی ولن سے ہو جاتی ہے۔ وہ ایک عیّاش آدمی ہوتا ہے اور جوئے کی لت میں سب کچھ جھونک دیتا ہے۔

پاکستان میں 1953ء میں فلم غلام ایک متاثر کن فلم ثابت ہوئی تھی اور اس میں بھی ہمالیہ والا نے مرکزی منفی کردار نبھایا۔ یہ کردار ایسا تھا جو دولت کے حصول کے لیے ہر کام کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ اگلے سال ہدایتکار انور کمال پاشا کی شاہکار فلم گمنام میں ہمالیہ والا کو ایک ہوٹل کے خود غرض مالک کا کردار ملا اور انھوں نے اپنی اداکاری سے شائقین کو متاثر کیا۔ پاکستان کی ایک شاہکار فلم سات لاکھ میں بھی ہمالیہ والا نے منفی کردار نبھایا۔ پاکستانی فلموں میں ہمالیہ والا کے یادگار کرداروں میں 1958ء کی ہدایت کار انور کمال پاشا کی تاریخی اور نغماتی فلم انارکلی کو کوئی نہیں بھول سکتا۔ اس میں ہمالیہ والا نے اکبر اعظم کا کردار ادا کیا تھا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں