فلمی پردے پر جہاں ہیرو، ہیروئن، ولن یا ویمپ کے ساتھ دیگر نمایاں کردار شائقین کی توجّہ کا مرکز بنتے ہیں اور کہانی کے کسی بھی منظر میں خاص اہمیت رکھتے ہیں، وہیں موجودہ دور میں ‘آئٹم نمبر’ اور ‘آئٹم گرل’ بھی فلم کی شہرت اور کام یابی کے لیے اہمیت اختیار کرگئے ہیں۔
کسی بھی فلم میں ہیروئن کا ڈانس اپنی جگہ لیکن بالخصوص مقامی زبانوں کی فلموں میں روایتی رقص کے مناظر عکس بند کرنے کے لیے ماہر ڈانسر کو پردے پر لایا جاتا تھا، اور بلاشبہ وہ اپنے فن میں طاق ہوتی تھیں۔ عام طور پر ایسے ‘آئٹم نمبرز’ کا فلم کی کہانی اور دیگر کرداروں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا، لیکن یہ فلم بینوں میں مقبول ہوتے تھے۔
آج بھی یہ سلسلہ جدید انداز سے، نئے اور مقبول چہروں کی صورت میں جاری ہے، لیکن یہاں ہم آپ کو ماضی کی چند آئٹم گرلز کے بارے میں بتارہے ہیں جنھوں نے پاکستانی فلموں میں اپنے رقص کی مہارت کا مظاہرہ کیا اور خوب شہرت حاصل کی۔ ان ڈانسرز نے کئی برس تک پاکستانی فلموں میں مجرے یا آئٹم نمبرز کیے اور شائقین میں مقبول ہوئیں۔
رخشی وہ مشہور فن کار تھی جس نے چالیس سے زائد فلموں میں آئٹم نمبرز کیے۔ اس نے 1951ء میں فلم نگری میں قدم رکھا اور ‘ڈائریکٹر’ سے کیریئر کا آغاز کیا، وہ پُرکشش اور جاذبِ نظر تھی۔ رخشی کو پچاس کے عشرے کی مقبول ترین ڈانسر کہا جاتا ہے۔ اس رقاصہ نے مشہور فلم دلا بھٹی (1956) میں منور سلطانہ کی آواز میں مقبول ہونے والے گیت "پیار کر لے، آجا پیار کر لے پر اپنے فن کا مظاہرہ کرکے خوب داد سمیٹی تھی۔
ایمی مینوالا وہ نام ور پاکستانی رقاصہ تھی جس نے 1955ء میں فلم سوہنی سے اپنا سفر شروع کیا تھا۔ اس نے پچاس سے زائد فلموں میں آئٹم نمبرز کیے۔ 1963ء میں فلم باجی میں ایمی مینوالا پر فلمایا ہوا نسیم بیگم کا یہ گیت "چندا توری چاندنی میں، جیا جلا جائے رے۔” بہت مقبول ہوا۔
چھم چھم نامی رقاصہ نے 60 کے عشرے میں سنیما کے شائقین کو اپنا مداح بنا لیا تھا۔ اس آرٹسٹ نے سو سے زائد فلموں میں کام کیا۔ اس کی پہلی فلم عزّت تھی۔ 1965ء کی مشہور فلم نائلہ میں مالا کا یہ خوب صورت گیت "کوئی پیار کا فسانہ گوری پیا کو سناؤ۔” اسی رقاصہ پر فلمایا گیا تھا۔
نگو، اپنے وقت کی مقبول آئٹم گرل تھی جس نے سو سے زائد فلموں میں رقص کا مظاہرہ کیا اور کئی مقبولِ عام گیتوں پر شان دار رقص کرکے شائقین کی توجہ حاصل کی۔