ایک زمانہ تھا جب پاکستان میں فلم انڈسٹری کی رونقیں عروج پر تھیں اور سنیما ایک مقبول تفریحی میڈیم تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد جب یہاں فلم سازی کا آغاز ہوا تو انڈسٹری میں آرٹسٹوں کی بڑی تعداد سامنے آئی جنھوں نے مختلف شعبہ جات میں اپنے فن اور صلاحیتوں کا اظہار کیا اور لازوال شہرت اور نام و مقام حاصل کیا۔ ان میں کئی اداکار ایسے تھے جن کی پہلی ہی فلم نے انھیں شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیا اور وہ دہائیوں تک فلم انڈسٹری پر راج کرتے رہے۔
یہاں ہم بات کررہے ہیں ’’چراغ جلتا رہا‘‘ کی جو اس لحاظ سے یادگار فلم تھی کہ اس سے پاکستان کے چار باکمال اداکاروں محمد علی، زیبا، دیبا اور کمال ایرانی نے اپنے کیریر کا آغاز کیا تھا۔
یہ فلم 9 مارچ 1962ء کو ریلیز ہوئی تھی۔ "چراغ جلتا رہا” کے فلم ساز، ہدایت کار اور کہانی نگار جناب فضل احمد کریم فضلی تھے۔ اس کی موسیقی نہال عبداللہ کی ترتیب دی ہوئی تھی جب کہ میر تقی میر، مرزا غالب کے علاوہ جگر مراد آبادی، ماہر القادری جیسے شعرا کا کلام شامل تھا جب کہ فضل احمد کریم فضلی نے بھی اس فلم کے لیے گیت تحریر کیے تھے۔
اس لحاظ سے بھی یہ فلم یادگار ہے کہ اس کی اوّلین نمائش کراچی کے نشاط سنیما میں مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح نے کی تھی۔ فلم کے دو نغمات مشہور بھارتی گلوکار طلعت محمود کی آواز میں ریکارڈ ہوئے تھے۔
فضل احمد کریم فضلی کی اس فلم محمد علی کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملا اور ان کے ساتھ زیبا بھی پہلی بار بڑے پردے پر نمودار ہوئیں جو بعد میں لیجنڈ اداکار محمد علی کی جیون ساتھی بنیں۔ یہی نہیں بلکہ ریڈیو پاکستان کے نوجوان صدا کار طلعت حسین بھی اسی فلم میں پہلی بار بطور اداکار شائقین کے سامنے آئے۔ اسی طرح دیگر فن کار بھی جو پہلی بار اس فلم کے ذریعے بڑے پردے پر متعارف ہوئے، نام و مقام بنانے میں کام یاب رہے اور محمد علی، زیبا دہائیوں تک پاکستانی سنیما پر چھائے رہے اور شائقین کے دلوں پر راج کیا۔
یہ بھی بتاتے چلیں کہ انڈسٹری کو چار فلمی ستارے اور باکمال اداکار دینے والی ’’چراغ جلتا رہا‘‘ کے ہیرو عارف اس فلم کے بعد کبھی بڑے پردے پر نظر نہیں آئے۔